سابق وزیر خزانہ اور رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اسد عمر نے توہین الیکشن کمیشن کے معاملے پر اپنا جواب الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیا ہے جس میں انہوں نے اپنے بیانات پر وضاحت دیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے معافی مانگ لی۔
گزشتہ روز الیکشن کمیشن میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، اسدعمر اور فواد چودھری کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت اسد عمر نے الیکشن کمیشن کے شوکاز نوٹس پر جواب جمع کروا دیا۔
اسد عمر نے لکھا کہ یہ بات کافی حد تک واضح نظر آرہی تھی کہ الیکشن کمیشن کی توجہ صرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 4 اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال پر مرکوز تھی جبکہ الیکشن کمیشن نے دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ دوسری سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس میں اس سے کہیں زیادہ سنگین بے ضابطگیاں تھیں، لہٰذا میں نے اپنے جائز تبصروں کا اظہار کیا جو میرا بنیادی حق ہے۔
انہوں نے لکھا کہ لہٰذا ان تبصروں میں کسی بھی بات کو توہین آمیز نہیں کہا جا سکتا، وہ تبصرے حقائق پر مبنی تھے جو جائز تنقید کے لیے عوامی سطح پر کیے گئے تھے۔اسد عمر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 2 اگست 2022 کو فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری ہوتے ہی پورے میڈیا نے پی ٹی آئی کے خلاف مہم شروع کردی تھی۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس یک طرفہ رپورٹ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا، پی ٹی آئی کے سیکریٹری کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا کہ رپورٹ میں موجود غلطیوں اور غیر قانونی چیزوں کی نشاندہی کروں جس کی قانون میں اجازت ہے۔
اسد عمر نے لکھا کہ اس طرح کی متعصبانہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پر میں نے منصفانہ تنقید کی تھی کہ ابتدا میں یہ صرف ایک گمان تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے متعصبانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے لیکن ان کی جانبدارانہ ’فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ‘ کے بعد یہ یہ گمان یقین میں بدل گیا، الیکشن کمیشن پی پی ٹی آئی کو نشانہ بنانے، اسے بطور پارٹی تحلیل کرنے یا پارٹی سربراہ کو نااہلی کی جانب دھکیلنے کے ایجنڈے پر کام کر رہا تھا حالانکہ ایسا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔
انہوں نے لکھا کہ میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے کوئی غیر منصفانہ، بے بنیاد یا الیکشن کمیشن کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور درحقیقت یہ تبصرے اس لیے کیے ہیں تاکہ الیکشن کمیشن پر اعتماد بحال کیا جا سکے۔
اپنے جواب کے اختتام پر اسد عمر نے کہا کہ اس تناظر میں الیکشن کمیشن کی جانب سے میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائیوں کا آغاز مکمل طور پر دائرہ اختیار سے باہر، بے بنیاد اور آرٹیکل 9، 10 اے، 19، 175 اور 204 کی خلاف ورزی ہے، اس لیے مذکورہ وجوہات کی بنا پر اسے برخاست کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود اگر الیکشن کمیشن محسوس کرتا ہے کہ یہ بیانات اس نوعیت کے ہیں جو توہین کے مترادف ہیں میں اپنے آپ کو الیکشن کمیشن کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں، مجھے اپنی جانب سے دیے گئے بیانات پر افسوس ہے لہٰذا میری معافی قبول کی جائے اور توہین الیکشن کمیشن کی کارروائی ختم کی جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 10 جنوری کو الیکشن کمیشن نے توہین الیکشن کمیشن کیس میں عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تینوں رہنماؤں کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔