بلوچستان کے اہم رہنما پیپلز پارٹی میں شامل

بلوچستان کے اہم رہنما پیپلز پارٹی میں شامل

متعدد سینئر سیاستدانوں کی اپنی جماعت میں شمولیت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان میں اپنی صفوں کو مضبوط کرتی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ماہرین ان اقدامات کو انتخابی سال کے دوران ملک کے سب سے بڑے صوبے کے تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامے کی علامات کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

بلاول ہاؤس کراچی سے جاری بیان کے مطابق سابق صوبائی وزرا نوابزادہ گزین مری اور طاہر محمود، وزیراعلیٰ بلوچستان کے کوآرڈینیٹر نوابزادہ جمال رئیسانی اور میر فرید رئیسانی نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔

پارٹی میں شامل ہونے والے دیگر رہنماؤں میں میر عبداللہ راہیجا اور میر اللہ بخش رند شامل ہیں۔سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر سردار فتح محمد حسنی بھی رکنیت بحال ہونے کے بعد دوبارہ پارٹی میں آگئے ہیں۔

ان رہنماؤں نے بلاول ہاؤس میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کے دوران پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے نئے ارکان کو خوش آمدید کہا اور کہا کہ بلوچستان اور پیپلز پارٹی کی تاریخی وابستگی ہے اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ بلوچستان کے حقوق کی جنگ لڑی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی بلوچستان کی سیاست کا ایک لازمی حصہ ہے، پارٹی بلوچ عوام کے حقوق کے لیے اپنی جدوجہد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔سیاستدانوں کے اس گروپ نے ایک ایسے موقع پر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے جب ایک ہفتہ قبل ہی بلوچستان عوامی پارٹی کے کئی رہنماؤں نے اپنی سابقہ جماعت سے راہیں جدا کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ان ارکان میں صوبائی رکن اسمبلی ظہور بلیدی، سلیم کھوسہ، عارف محمد حسانی، حاجی ملک شاہ گوریج، میر ولی محمد، میر اصغر رند، میر فائق جمالی، سردارزادہ فیصل جمالی اور آغا شکیل درانی شامل تھے۔

2018 کے عام انتخابات کے عین موقع پر بنائی گئی بلوچستان عوامی پارٹی بلوچستان میں برسر اقتدار ہے۔اس بار پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے سیاستدانوں کا تعلق جانے مانے سیاسی گھرانوں سے ہے جن میں سے متعدد ماضی میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ حال ہی میں جے یو آئی (ف) میں شمولیت اختیار کرنے والے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواز اسلم رئیسانی کے دو بھتیجے جمال اور فرید رئیسانی بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی فہرست کا حصہ ہیں۔

نوابزادہ گزین مری کی شمولیت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ان کے مرحوم والد نواب خیر بخش مری کے 70 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کبھی اچھے سیاسی تعلقات نہیں رہے۔

ایک تجربہ کار سیاست دان نوابزادہ گزین مری پہلی بار 1993 میں بلوچستان اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے اور انہوں نے اپنے قریبی رشتے دار نواب ذوالفقار علی مگسی کی کابینہ میں وزیر داخلہ اور وزیر برائے قبائلی امور کے طور پر کام کیا تھا۔

تاہم 2000 میں وہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے دبئی چلے گئے تھے اور وہاں 18 سال گزارے کیونکہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی قیادت میں حکومت نے ان کے خلاف مقدمات درج کرائے تھے۔

بعد ازاں بلوچستان ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں نے انہیں تمام مقدمات سے بری کر دیا تھا۔سیاسی مبصرین ان کے سیاسی اور قبائلی پس منظر کے پیش نظر پیپلز پارٹی میں شولیت کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق آصف زرداری نے گزین مری کو اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم اور قومی دھارے کی سیاست میں شامل ہونے کے حوالے سے قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

پارٹی میں ان کی شمولیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ گزین مری بلوچستان کی مستقبل کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سردار عارف محمد حسانی کی واپسی بھی کوئی معمولی اقدام نہیں، چاغی سے رکن اسمبلی اور ان کے بیٹے سردار عمیر حسانی کی رکنیت 2018 میں اس وقت معطل کر دی گئی تھی جب انہوں نے چاغی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار عمر گورگاج کے خلاف عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

تاہم انہیں تقریباً پانچ سال تک پارٹی سے باہر رکھنے کے بعد پیپلز پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے گزشتہ ہفتے ان کی رکنیت بحال کر دی تھی۔

-- مزید آگے پہنچایے --