کبھی الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی مخالفت نہیں کی، چیف الیکشن کمشنر

کبھی الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی مخالفت نہیں کی، چیف الیکشن کمشنر

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ ایک بار پھر نئی حلقہ بندیوں کا سوچا جارہا ہے اگر ہمیں وقت نہیں دیا گیا تو دوبارہ بلدیاتی انتخابات کرانا مشکل ہوجائےگا، الیکشن کمیشن نے کبھی الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی مخالفت نہیں کی لیکن ایسا نہیں ہوسکتا ہے جلد بازی میں پورا الیکشن متنازع بنادیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کا عمل 31مارچ 2022 جبکہ بلوچستان کے 32 اضلاع میں 29 مئی کو انتخابات کا عمل مکمل کیا، بلوچستان میں سیلاب کی وجہ سے ملتوی ہونے والے انتخابات 11 دسمبر کو کرائے جارہے ہیں، اسلام آباد میں پولنگ 31 دسمبر کو ہوگی۔

 

سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ سندھ کے پہلے مرحلے کے انتخابات 26 جون کو ہوئے جبکہ شدید بارش کی وجہ سے ملتوی ہونے والے کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں موخر ہونے والے انتخابات 15 جنوری 2023 کو ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں انتخابات کے انعقادکے لیے 2 بار حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کیا مگر صوبائی حکومت کے بار بار قوانین میں ترامیم کی وجہ سے انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہوسکا۔

سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے لیے 3 سے 4 ماہ درکار ہوتے ہیں جب بھی حلقہ بندیوں مکمل کرکے الیکشن کے قریب پہنچتے تھے تو اُس وقت کی صوبائی حکومت اپنے لوکل گورنمنٹ قوانین میں تبدیل کردیتی تھی جس کی وجہ سے ہمیں دوبارہ حلقہ بندی کرنی پڑتی تھی۔

ان کا کہنا تھا الیکشن کمیشن تیسری بار حلقہ بندی کے لیے اقدامات اٹھا رہا ہے، کمیشن صوبہ پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے تیار ہے اور اس حوالے سے صوبائی حکومت کو پابند بنایا جائےگا کہ وہ الیکشن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں اور ضروری فنڈ بھی مہیا کریں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ پنجاب کے انتخابات اپریل کے آخر ی ہفتے میں ہوں گے، کم وقت کی وجہ سے پنجاب حکومت کو پابند کردیا گیا کہ اپریل کے آخری ہفتے میں انتخابات کے انعقاد کو ہر صورت یقینی بنائے۔

سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ اگر اس بار پنجاب حکومت لوکل گورنمنٹ قانون تبدیل کرے گی تو الیکشن کمیشن اس سے پچھلے قانون آئین کے آرٹیکل 283 کے تحت انتخابات کروائے گا۔چیف الیکشن کمشنر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2021 اور 2022 میں قومی اسمبلی کے 17 اور صوبائی اسمبلی کے 24 انتخابات کروائے گئے، عموماً یہ تاثر ہے کہ ضمنی الیکشن حکومت جیتا کرتی ہے لیکن کُل ضمنی انتخابات میں سے پینتیس اُس وقت کی اپوزیشن نے جیتے اور 16 اُس وقت کی حکومت نے جیتے۔

 

سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ تمام ضمنی انتخابات کے دوران الیکشن اکمیشن نے ضابطہ اخلاق پر عمل کو یقینی بنانے کے لیے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر اور مانیٹرنگ ٹیموں کی تعیناتی اور انتخابات کی سخت مانیٹری کی گئی اور خلاف ورزی کرنے کی صورت میں کارروائی بھی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 5 اگست 2022 کو شائع کرلی گئی ہے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وفاقی حکومت اب دوبارہ حلقہ بندیاں کرانے کا سوچ رہی ہے ،ہم نے بار ہا درخواست کی کہ ہمیں کم از کم 6 سے 7 ماہ حلقہ بندیوں کے لیے درکار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں وقت نہیں دیا گیا تو دوبارہ حلقہ بندیاں کرانا مشکل ہوجائے گا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابی عمل میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی حمایت کرتا ہے لیکن ٹیکنالوجی ایسی ہونی چاہیے کہ تمام اسٹیک ہولڈز متفق ہوں ، ووٹرز اپنے حق رائے دہی آسانی سے استعمال کرسکیں اور خفیہ کو یقنینی بنایا جا سکے۔

سکندر سلطان راجہ نے بتایا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کیے لیے چند اقدامات اٹھائے گئے ہیں، ای وی ایم اور اوویرسیز ووٹنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر بہت تنقید ہوتی ہے ، میں چیلنج کرتا ہوں کہ آپ کہیں دکھا دیں کہ الیکشن کمیشن نے ای وی ایم یا اوویسرز ووٹنگ کی مخالفت کی ہو، ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ جلد بازی میں پورا الیکشن متنازع بنا دیں۔

-- مزید آگے پہنچایے --