پاکستانی عوام اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن اور بہتر تعلقات چاہتے ہیں، بلاول بھٹو

پاکستانی عوام اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن اور بہتر تعلقات چاہتے ہیں، بلاول بھٹو

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر عمران خان نے خود کہا ہے کہ انہوں نے امریکی سازش کے بیان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو اب ہمیں بھی اس بیان کو چھوڑنا چاہیے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے پاک – بھارت تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 2019 میں بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ کی قرارداد اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے تعلقات میں خلل پیدا ہوا اور میرا یقین ہے کہ پاکستانی عوام اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن اور بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم اہم خارجہ پالیسی کے حوالے سے مشکل دور سے گزر آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ملک چین نے متعدد مسائل اور معاملات میں پاکستان کا بہت ساتھ دیا جس میں سی پیک منصوبوں سے لے کر کورونا وائرس کے دوران پاکستانی طلبہ کی وطن واپسی، لاک ڈاؤن اور سفری مسائل پر تعاون شامل ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ چین کے اسی تعاون کے تسلسل میں وزیر اعظم شہباز شریف اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی سائیڈلائن پر ملاقات ہوئی جہاں دونوں ممالک میں مستقبل کے تعاون میں پیش رفت ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایک اور تاریخی دوست امریکا رہا ہے جس سے ہمارے تعلقات بھی تاریخی ہیں اور دونوں ممالک نے مل کر بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات اور تعاون میں دوری پیدا ہوتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ منصب پر آنے کے بعد پہلی ٹیلی فونک گفتگو امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن سے ہوئی جس میں ہمارا بہت ہی وسیع تبادلہ خیال ہوا۔انہوں نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کو یہ پتا تھا کہ پاکستان کے ساتھ جس طریقے سے تاریخی تعلقات رہے ہیں وہ بہت ہی پابند اور مخصوص رہے ہیں اور ان تعلقات کو دونوں ممالک کی معیشت کے مفاد کے لیے بڑھانا چاہتے ہیں اور اسی سوچ کے ساتھ ہم آگے بڑھے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ غذائی قلت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی طرف سے منعقد کیے گئے اجلاس کی سائیڈلائن پر بھی ہم نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر بہت تفصیلی ملاقاتیں کیں، جس کے بعد ہم نے دیکھا کہ نہ صرف باتوں میں بلکہ عملی طور پر بھی امریکا کے پاکستان کے ساتھ نقطہ نظر مثبت انداز میں جارہا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں صرف ڈو مور اور دہشت گردی کو لے کر ایک ہی ایجنڈا ہوتا تھا مگر اب پہلی بار پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات ڈی ہائفینیٹ ہو چکے ہیں جو ہماری بہت بڑی کامیابی ہے اور اس کا باقاعدہ اعلان ہو چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلسل کوششوں کے بعد نہ صرف تعلقات ڈی ہائفینیٹ ہوچکے ہیں بلکہ دہشت گردی اور سیکیورٹی تعاون کے ساتھ ساتھ معاشی تعاون اور تجارتی تعاون میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ میں نے اپنے پہلے انٹرویو میں بھی یہ کہا تھا کہ کسی بھی ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ترجیح ’ٹریڈ اوور ایڈ‘ پر رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریاست کی سب سے بڑی کامیابی گرے لسٹ سے نکلنا ہے کیونکہ وہ ممالک جو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی مخالفت کرتے تھے ہماری کامیابی دیکھ کر انہوں نے ہی تجویز کیا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جائے کیونکہ پاکستان نے وقت سے پہلے دونوں ایکشن پلانز پر عمل کیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں مستقبل میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف اقدامات جاری رکھنے ہیں اور جس طرح پاکستان نے وسیع بنیادوں پر دونوں ایکشن پلانز پر عمل کیا ہے ہماری کوشش ہوگی کہ پاکستان بھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا حصہ بنے۔انہوں نے کہا کہ 2008 سے 2013 کی حکومت نے جی ایس پی پلس کی حیثیت حاصل کی جس کی بنیاد پر یورپ میں پاکستانی درآمدات میں 18 فیصد اضافہ ہوا جس سے نہ صرف پاکستان اور اس کے عوام کو بلکہ یوریی یونین اور اس کے معیشت کو بھی فائدہ ہوا، لہٰذا یہ پاکستان اور یورپی یونین کا فائدہ ہے کہ آگے جاکر جی ایس پی پلس کے اسٹیٹس میں توسیع کی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی بار اگر کسی ملک کے حق میں کام لیا گیا توہ وہ پاکستان تھا اور ہم نے سیکریٹری انتونیو گوتریس کے دورے کا بندوبست کیا اور انہیں پاکستان میں موسمیاتی آفت سے آنے والی تباہی اور سیلاب سے آگاہ کیا جس کے بعد تقریباً پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر قبضہ کرلیا تھا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ایک سال کے اندر پاکستان میں دہشت گردی کا اضافہ ہوا ہے تو پاکستانی ریاست کو بھی دہشت گردی کے خلاف ایک سال کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی کیونکہ ہم ماضی کی طرح دہشت گردی کو برداشت نہیں کر سکتے۔چمن بارڈر بند ہونے سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک دہشت گردی کے واقعے کے نتیجے میں بارڈر بند ہے اور اس دہشت گردی میں چاہے کوئی بھی گروہ ملوث ہو ہم اس کی بھرپور مزاحمت کرتے ہیں، بلکہ ہمسایہ ملک سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی ان کے خلاف مناسب اقدام کرے۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بات ہے تو دیگر پیچیدہ مسائل کو بھی دیکھنا ہوگا جیسا کہ بلوچستان میں مسلح گروہوں کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں اور بلوچستان سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو بھی پکڑا گیا تھا اور اگر دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے تو یہ پوری دنیا کو پتا ہے کہ اس کی معاونت کس نے کی۔

سابق وزیر اعظم کی طرف سے امریکی مداخلت کے بیانیہ پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر عمران خان نے خود کہا ہے کہ انہوں نے امریکی سازش کے بیان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو اب ہمیں بھی اس بیان کو چھوڑنا چاہیے اور پاک – امریکا تعلقات اپنی سمت میں جاری ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دنیا میں ہم واحد ملک ہیں جس نے خود ہی پاکستان کو دیوالیہ کی طرف دھکیلا اور خود ہی محنت کرکے اس کو وہاں سے نکالا مگر ملک میں قدرتی آفت آئی جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو 10 فیصد نقصان ہوا ہے تو اس کے اثرات بھی معیشت پر ہوں گے۔انہوں نے ایران اور روس کے ساتھ تعلقات پر بھی بات کی اور کہا کہ ایران کے ساتھ بھی وسیع تعلقات ہیں اور دورہ ایران کے دوران متعدد مسائل پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔

-- مزید آگے پہنچایے --