اٹلی نے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین کی جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنس پلس یعنی جی ایس پی پلس رعایت کی تجدید کے لیے پاکستان کی حمایت کرے گا۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آئی سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر تاجر برادری سے خطاب کرتے ہوئے، اطالوی سفارت خانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن ڈاکٹر روبرٹو نیکیا نے پاکستان کو یہ تجویز بھی دی کہ وہ باہمی تعاون کے غیر استعمال شدہ شعبوں کو تلاش کرنے کے لیے اٹلی میں مخصوص سیکٹر تجارتی مشن بھیجے۔
ڈاکٹر روبرٹو نیکیا نے مزید کہا کہ اطالوی سفارت خانے میں تجارتی سیکشن کھولا جا رہا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو فروغ ملے گا۔
انہوں نے یقین دلایا کہ ان کا سفارت خانہ پاکستانی تاجر برادری کو اٹلی کے ساتھ کاروباری تعلقات کو فروغ دینے میں سہولت فراہم کرے گا۔
انہوں نے تجارت کو فروغ دینے اور نجی شعبوں کے درمیان نیٹ ورکنگ اور کاروباری روابط کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستان-اٹلی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا خیال بھی پیش کیا۔
اطالوی سفارتکار نے کہا کہ اٹلی میں 50 لاکھ خاندانی ملکیت والے چھوٹے کاروبار ہیں اور قریبی تعاون سے دو طرفہ کاروباری تعلقات کو فروغ ملے گا۔
اٹلی اور پاکستان کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم ڈیڑھ ارب یورو ہے، اسے 5 سے 6 ارب یورو تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آئی سی سی آئی کے صدر محمد شکیل منیر نے کہا کہ اٹلی نے ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبے میں ترقی کی ہے اس لیے پاکستان کے صنعتی اور کان کنی کے شعبوں میں بہتری کے لیے قریبی تعاون سود مند ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس سنگ مرر اور گرینائٹ کے وافر ذخائر موجود ہیں اور اٹلی سے مشینری کی درآمد سے ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی پیداوار اور برآمدات کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
شکیل منیر نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کو باہمی تجارت کے ممکنہ شعبوں کی تلاش کے لیے وفود کے باقاعدہ تبادلے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
خیال رہے کہ جی ایس پی پلس پاکستان کو 66 فیصد ٹیرف لائنوں کے لیے صفر ڈیوٹی پر یورپی یونین کی مارکیٹ میں اشیا برآمد کرنے کے قابل بناتا ہے۔
تاہم یورپی یونین کے مطابق یہ حیثیت 27 بین الاقوامی کنونشنوں پر عمل درآمد میں پیش رفت کا مظاہرہ کرنے والے ممالک کے لیے مشروط ہے۔
جون میں یورپی یونین کا ایک مشن کنونشنوں پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان پہنچا تھا مشن کے دورے کے نتائج 2022 کے آخر تک یورپی پارلیمنٹ میں پیش کیے جائیں گے۔