ابو_یحیی
گزشتہ سے پیوستہ
ان دونوں کی باتوں سے میرا دل کٹ رہا تھا۔ مجھ میں اب مزید ان کے ساتھ رہنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔ صالح کو میری حالت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ اس نے ان دونوں سے مخاطب ہوکر کہا:
’’عبد اللہ کو اب یہاں سے رخصت ہونا ہوگا۔ آپ دونوں یہاں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کیجیے۔ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ حساب کتاب شروع ہوجائے گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آگے لے گیا۔ میں چاہتا تھا کہ جاتے جاتے لیلیٰ کو تسلی دے دوں۔ میں پیچھے مڑا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پیچھے کا منظر بدل گیا ہے۔ ہم کسی اور جگہ کھڑے تھے۔
’’مجھے ذرا تیزی سے تمھیں وہاں سے ہٹانا پڑا۔ وگرنہ تمھیں اور دکھ ہوتا۔ کیا تم اپنے بیٹے سے ملنا چاہو گے؟‘‘
’’نہیں۔ میں مزید کچھ دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔‘‘، میں نے دو ٹوک جواب دیا۔
میرا دل افسردگی کے گہرے سمندر میں ڈوب چکا تھا۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں کسی طرح واپس دنیا میں لوٹوں اور لیلیٰ کی اصلاح کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنالوں۔ مجھے احساس ہوا کہ اب یہ ممکن نہیں۔ پھر اندیشے کے ایک زہریلے سانپ نے میرے سامنے سر اٹھایا۔ میں نے صالح سے کہا:
’’صالح! کہیں لیلیٰ کے اس حال میں میرا قصور تو نہیں۔ کہیں میں تو اس کا ذمہ دار نہیں؟‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہے۔ دیکھو! اولاد تو نوح علیہ السلام جیسے پیغمبر کی بھی گرفت میں آئی ہے۔ مگر ذمہ داری ان کی نہیں تھی۔ انسان کا فریضہ صرف صحیح بات دوسروں تک پہنچانا ہے۔ قبول کرنے نہ کرنے کا فیصلہ ہمیشہ دوسرے کرتے ہیں۔ تمھاری بیٹی لیلیٰ نے اپنے فیصلے خود کیے تھے۔ لہٰذا تم اس کی تکلیف کے ذمہ دار نہیں ہو۔‘‘
مجھے لگا جیسے مجھ پر سے ایک بوجھ اتر گیا ہے۔ مگر اگلے ہی لمحے مجھ پر ایک دہشتناک انکشاف ہوا۔ اگر میری بیٹی کی وجہ سے میری پکڑ کی نوبت آئی تو کیا ہوگا؟ یہی نا کہ میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی پیاری بیٹی کو جہنم میں جھونک کر اپنی جان بچانا پسند کروں گا۔ کیوں کہ آج کے دن کا عذاب اتنا شدید ہے کہ سارے رشتے اور تعلقات اس کے آگے ہیچ ہیں۔
(جاری ہے)