ابو_یحیی
گزشتہ سے پیوستہ
ہم ذرا قریب پہنچے تو عاصمہ کی نظر مجھ پر پڑی۔ اس نے لیلیٰ کو ٹہوکا دیا۔ لیلیٰ نے گھٹنوں سے سر اٹھایا۔ اس کی نظر میری نظر سے چار ہوئی۔ ان آنکھوں میں ایسی بے بسی، وحشت اور دکھ تھا کہ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ وہ اٹھی۔ ۔ ۔ بھاگ کر مجھ سے لپٹ گئی اور پوری قوت سے رونے لگی۔ اس کی زبان سے ابو ۔ ۔ ۔ ابو کے سوا کچھ اور نہیں نکل رہا تھا۔ میں بڑی مشکل سے خود پر ضبط کررہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ اگر روتی رہی تو کہیں میرے ضبط کا بند بھی میرا ساتھ نہ چھوڑ دے۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرکر کہا:
’’بیٹا چپ ہوجا۔ میں نے تجھے بہت سمجھایا تھا نا۔ اس دن کے لیے جینا سیکھو۔ دنیا سوائے ایک فریب کے اور کچھ نہیں۔‘‘
’’ہاں آپ ٹھیک کہتے تھے۔ مگر میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔‘‘، یہ کہتے ہوئے اس کی سسکیوں کی آواز اور بلند ہوگئی۔
وہ میرے سینے سے لگی ہوئی تھی اور میری نظروں کے سامنے سے اس کی پیدائش، بچپن، لڑکپن، جوانی اور زندگی بھر کے تمام مراحل کی تصویریں گزر رہی تھیں۔ کبھی بستر پر پڑی ہوئی وہ گڑیا جس کے رونے سے میں بے چین ہوجایا کرتا تھا۔ کبھی فراک پہنی ہوئی وہ پری جس کی ایک ایک ادا پر میں جان نثار کرتا تھا۔ کبھی اسکول کے یونیفارم میں بیگ لٹکائے وہ معصوم سی کلی، کبھی کالج کے یونیفارم میں پھولوں جیسی وہ بچی اور کبھی شادی کے جوڑے میں سجی میرے دل کا وہ ٹکڑا جو اس وقت سراپا حسرت و یاس کی صورت بنے میرے سینے سے لگی تڑپ رہی تھی۔
مجھے لگا جیسے میرا دل پھٹ جائے گا۔ میں نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر خود سے دور کردیا اور اپنا سر پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ لیلیٰ سسکتی ہوئی آواز میں بولی:
’’مجھے اپنے گھر والوں میں سے یہاں اور کوئی نہیں ملا، نہ شوہر نہ بچے، نہ آپ لوگوں میں سے کوئی ملا، سوائے بھیا کے۔ ان کی حالت بہت خراب ہے ابو! وہ بہت بے قراری سے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہیں بس آپ ہی سے امید ہے۔‘‘
میں نے لیلیٰ کی طرف دیکھ کر کہا:
’’اس احمق نے دنیا میں بھی غلط امیدیں باندھی تھیں اور اب بھی غلط امید باندھ رہا ہے۔ دنیا میں اسے اپنے کاروبار، بیوی اور بچوں سے ساری امیدیں تھیں۔ اس کا نتیجہ وہ اب بھگت رہا ہے۔ اور اب وہ مجھ سے امید لگارہا ہے۔ حالانکہ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
اتنے میں عاصمہ بھی ہمارے قریب آکر کھڑی ہوچکی تھی۔ میری آخری بات سن کر وہ بولی:
’’انکل مجھے تو ساری امید آپ سے تھی۔ لیکن اب آپ بھی ناامید کررہے ہیں۔‘‘
’’تمھیں یاد ہے عاصمہ! جب تم لیلیٰ کے ساتھ پہلی دفعہ میرے گھر آئیں تھی تو میں نے تم سے کیا کہا تھا۔‘‘
’’مجھے یاد ہے ابو آپ نے اس سے کیا کہا تھا۔‘‘، عاصمہ کی جگہ لیلیٰ نے جواب دیا۔
’’آپ نے کہا تھا کہ بیٹا تم میری بیٹی کی سہیلی ہو۔ دیکھو ایسی سہیلی بننا جو جنت میں بھی اس کے ساتھ رہے۔ ایسا نہ ہو کہ تم دونوں خدا کو ناراض کردو اور کسی بری جگہ تم دونوں کو ساتھ رہنا پڑے۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم دونوں ایک دوسرے کو الزام دو کہ تمھاری دوستی نے مجھے برباد کردیا۔‘‘
آخری جملہ کہتے ہوئے لیلیٰ پھر رونے لگی۔ اس کے ساتھ عاصمہ بھی سسکیاں بھرنے لگی۔ میں نے گردن گھماکر صالح کو دیکھا جو اس عرصے میں خاموش کھڑا ہوا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ کوئی امید افزا بات کہہ سکے۔ مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر وہ کہنے لگا:
’’عبد اللہ! ویسے تو ہر فرد کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کا عمل اگر رائی کے دانے کے برابر تھا تب بھی اس کے نامۂ اعمال میں موجود ہوگا۔ ہر عمل کو آج پرکھا جائے گا۔ نیت، اسباب، محرکات، حالات، عمل اور اس کے نتائج، ایک ایک چیز کی جانچ ہوگی۔ فرشتے، در و دیوار، اعضا و جوارح ہر چیز گواہ بن جائے گی۔ یہاں تک کہ یہ بالکل متعین ہوجائے گا کہ ہر اچھا برا عمل کس جزا یا سزا کا مستحق ہے۔ نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک، صبر اور نصرت دین کے لیے کئے گئے کاموں کا بدلہ بے حد و حساب دیا جائے گا۔ جبکہ بدی کا بدلہ اتنا ہی ہوگا جتنی بدی کی ہوگی۔ البتہ شرک، قتل، زنا جیسے جرائم اگر نامۂ اعمال میں آگئے تو انسان کو تباہ کردیں گے۔ جبکہ مال یتیم کھانا، وراثت کا مال ہڑپ کرنا، تہمت لگانا وغیرہ جرائم اتنے خطرناک ہیں کہ ساری نیکیوں کو کھاکر انسان کو جہنم میں پہنچاسکتے ہیں۔
یہ سزا جزا کے عمومی ضابطے ہیں۔ ان کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ فیصلہ کریں گے۔ اور یقین رکھو کہ کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم نہیں ہوگا۔ تمھاری اولاد کے حوالے سے واحد امید افزا بات جو میں تمھیں پہلے ہی بتاچکا ہوں وہ یہ ہے کہ تمھارے جیسے سابقین کے علاوہ آج کے دن حساب کتاب کے ذریعے سے سچے اہل ایمان کی نجات کا معاملہ جلد یا بدیر ہوجائے گا۔ البتہ تم اپنی اولاد کو مجھ سے بہتر جانتے ہو کہ ان کی نجات کا امکان کتنا ہے۔‘‘
’’مجھے زیادہ پریشانی اپنے بیٹے کی ہے۔‘‘، میں نے جواب دیا۔
اس جواب میں میرے سارے اندازے، امیدیں اور اندیشے جمع تھے۔ میں نے مزید تبصرہ کیا:
’’اسے پیسے کمانے، گاڑی، بنگلے اور دولت مند بننے کا بہت شوق تھا۔ یہ شوق جس کو لگ جائے، اسے کسی بھی برے حال میں پہنچاسکتا ہے۔ اس کے بعد اکثر لوگ حلال حرام اور اچھے برے کی تمیز کھوبیٹھتے ہیں۔اگر کسب حرام سے بچ بھی جائیں تو اسراف، غفلت، نمود و نمائش، بخل، تکبر اور حق تلفی جیسی برائیاں انسان کو احتساب الٰہی کی اس عدالت میں لاکھڑا کرتے ہیں جہاں نجات بہت مشکل ہوجاتی ہے۔‘‘
میری اس بات کا جواب غیر متوقع طور پر عاصمہ نے دیا:
’’یہ ساری باتیں لیلیٰ مجھے بتاتی تھی۔ اس نے آپ کی کچھ کتابیں بھی مجھے پڑھنے کے لیے دی تھیں۔ مگر مجھے اردو پڑھنی نہیں آتی تھی۔ میری بدقسمتی کہ میری ساری زندگی غفلت، دنیا پرستی، فیشن، نمود و نمائش، اسراف اور تکبر میں گزرگئی۔ مجھ پر حسین نظر آنے کا خبط سوار تھا۔ میں نے لاکھوں روپے زیور، کپڑوں اور کاسمیٹکس میں برباد کردیے۔ مگر غریبوں پر میں کبھی کچھ نہ خرچ کرسکی۔ کبھی کیا بھی تو اس کو بہت بڑا احسان سمجھا۔ حالانکہ اللہ نے ہمیں بہت مال و دولت عطا کیا تھا۔
یہی نہیں مجھے جب غصہ آتا تھا تو میں بے دریغ اسے کمزور لوگوںپراتارتی تھی۔ باحیا لباس پہننا میرے نزدیک غربت کی علامت تھی۔ چغلیاں، غیبت، عیب جوئی میرے لیے معمولی باتیں تھیں۔ یہ معمولی باتیں آج اتنا بڑا روگ بن جائیں گی مجھے نہیں معلوم تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔‘‘
یہ کہہ کر ایک دفعہ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ لیلیٰ افسردہ لہجے میں بولی:
’’اس کے امی ابو بہت برے حال میں ہم سے ملے ہیں۔ ان کے ساتھ پتہ نہیں کیا ہوگا۔‘‘
پھر وہ مجھے دیکھ کر بولی:
’’ابو میرے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘، یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
’’بیٹا انتظار کرو۔ امید یہ ہے کہ اب زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ حساب کتاب شروع ہوجائے گا۔ اس وقت مجھے اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اتنی سختی اٹھانے کے بعد وہ تمھارے وہ گناہ معاف کردے گا جو تم نے دنیا میں معمولی سمجھ کر کیے تھے۔‘‘
’’کاش ابو! میں آپ کا راستہ اختیار کرلیتی۔ آپ نے مجھے بہت سمجھایا تھا کہ ایمان زبان سے کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں، خدا کی ہستی کو اپنی زندگی بنالینے کا نام ہے۔ رسمی عبادت خدا کو مطلوب نہیں۔ اسے قلب کی دینداری چاہیے۔ اسے چند بے روح سجدوں کی ضرورت نہیں، ایک سچا خدا پرست بندہ چاہیے۔ ایمان میری زندگی میںتو تھا، مگر وہ میری شخصیت کا احاطہ نہ کرسکا۔ میں نے آپ کے کہنے سے نمازیں تو پڑھیں، مگر خدا کی یاد میری زندگی نہیں بن سکی۔ میں نے روزے تو رکھے، مگر مجھ میں سچا تقویٰ پیدا نہیں ہوسکا۔ زیادہ سے زیادہ مجھے پچاس برس وہ سب کرنا پڑتا۔ یہاں تو صدیاں گزرگئی ہیں اس گرمی اور سختی میں پریشان گھومتے گھومتے۔‘‘
لیلیٰ کی بات سن کر عاصمہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سسکتے ہوئے کہا:
’’بہن تم مجھ سے تو بہتر ہو۔ میں نے تو زندگی میں نماز روزہ کچھ نہیں کیا۔ اخلاقی گناہ، نمود ونمائش، اسراف، تکبر اور حق تلفی وغیرہ اس کے علاوہ ہیں۔ میرا کیا ہوگا۔ مجھے تو سوائے جہنم کے کوئی انجام نظر نہیں آتا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔
(جاری ہے)