ابو_یحیی
گزشتہ سے پیوستہ
میدان حشر میں غضب کی گرمی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ نجانے لوگ پیاس سے زیادہ پریشان ہوں گے یا پھر اس اندیشے سے کہ کہیں انھیں جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں نہ پھینک دیا جائے۔ میں اسی خیال میں تھا کہ صالح کی آواز کانوں سے ٹکرائی:
’’عبداللہ! تیار ہوجاؤ۔ میں تمھیں تمھاری بیٹی سے ملوانے لے جارہا ہوں۔‘‘
بے اختیار میں نے اپنا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبالیا۔ ہم کچھ قدم آگے چلے تو کھردری پتھریلی سطح پر دو لڑکیاں بیٹھی نظر آئیں۔ میں دور ہی سے ان دونوں کو پہچان گیا۔ ان میں سے ایک لیلیٰ تھی۔ میری سب سے چھوٹی اور چہیتی بیٹی۔ دوسری عاصمہ تھی۔ میری بیٹی کی عزیز ترین سہیلی۔
اس وقت ماحول میں سخت ترین گرمی تھی۔ لوگوں کے بدن سے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ بھوک تو پریشانی کے عالم میں اڑ چکی تھی، مگر پیاس کے عذاب نے ہر شخص کو پریشان کررکھا تھا۔ یہ دونوں بھی پیاس سے نڈھال بیٹھی تھیں۔ عاصمہ کی حالت بہت خراب تھی اور پیاس کی شدت کے مارے وہ اپنے بازو سے بہتا ہوا اپنا پسینہ چاٹ رہی تھی۔ ظاہر ہے اس سے پیاس کیا بجھتی۔ اس نے مزید بھڑکنا تھا۔ جبکہ لیلیٰ اپنا سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی تھی۔
عاصمہ ایک بڑے دولتمند خاندان کی اکلوتی چشم و چراغ تھی۔ خدا نے حسن، دولت، اسٹیٹس ہر چیز سے نوازا تھا۔ ماں باپ نے اپنی چہیتی بیٹی کو اعلیٰ ترین اداروں میں تعلیم دلوائی۔ بچپن سے اردو کی ہوا تک نہیں لگنے دی گئی۔ عربی اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ انگلش میڈیم اسکولوں کا اتنا اثر تھا کہ بچی انگریزی انگریزوں سے زیادہ اچھی بولتی تھی۔ مگر ایسے اسکولوں میں زبان زبان دانی کے طور پر نہیں بلکہ ایک برتر تہذیب کی غلامی کے احساس میں سیکھی جاتی ہے۔ چنانچہ زبان کے ساتھ مغربی تہذیب اپنے بیشتر لوازمات سمیت در آئی تھی۔ سلام کی جگہ ہیلو ہائے، لباس میں جینز شرٹ، انگزیزی میوزک اور فلمیں وغیرہ زندگی کا لازمہ تھے۔ تاہم عاصمہ خاندانی طور پر نودولتیے پس منظر کی نہیں بلکہ خاندانی رئیس تھی، اس لیے کم از کم ظاہر کی حد تک ایک درجہ کی تہذیب و شرافت، بڑوں کا ادب لحاظ اور رکھ رکھاؤ پایا جاتا تھا۔ اسی لیے میں نے اس دوستی کو گوارا کرلیا تھا کہ شاید لیلیٰ کی صحبت سے عاصمہ بہتر ہوجائے۔
لیلیٰ سے اس کی دوستی کالج کے زمانے میں ہوئی۔ معلوم نہیں کہ دونوں کے مزاج اور کیمسٹری میں کیا چیز مشترک تھی کہ پس منظر کے اعتبار سے کافی مختلف ہونے کے باوجود کالج کی رفاقت عمر بھر کی دوستی میں بدل گئی۔ مگر بدقسمتی سے اس دوستی میں عاصمہ نے لیلیٰ کا اثر کم قبول کیا اور لیلیٰ نے اس کا اثر زیادہ قبول کرلیا۔
لیلیٰ میری بیٹی ضرور تھی، مگر بدقسمتی سے وہ میرے جیسی نہ بن سکی۔ مجھ سے زیادہ وہ اپنے سب سے بڑے بھائی، جمشید کی لاڈلی تھی۔ وہی بھائی جو میرا پہلونٹی کا بیٹا تھا اور اسی کی طرح میدان حشر میں کہیں بھٹک رہا تھا۔ ایک طرف بڑے بھائی کا لاڈ پیار اور دوسری طرف عاصمہ کی دوستی۔ یہ عاصمہ اکلوتی ہونے کے ناطے خود والدین کی لاڈلی اور ناز و نعم میں پلی بڑھی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج حشر کی اس خواری میں سے اسے اپنا حصہ وصول کرنا پڑرہا تھا۔ میرے زمانے کی بیشتر اولادوں کو ان کے والدین کے لاڈ پیارنے برباد کرکے رکھ دیا تھا۔
اولاد ہر دور میں والدین کو محبوب رہی ہے۔ میرے زمانے میں یہ عجیب سانحہ رونما ہوا تھا کہ ماں باپ اپنے بچوں کے عشق میں اس طرح گرفتار ہوئے کہ خود ان کے کھلونے بن گئے۔ شاید یہ کم بچوں کا اثر تھا۔ پہلے ہر گھر میں آٹھ دس بچے ہوتے تھے۔ اس لیے والدین ایک حد سے زیادہ بچوں پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ مگر میرے زمانے میں والدین کے دو تین ہی بچے ہوتے تھے اور ان کی زندگی کا واحد مقصد یہی بن گیا تھا کہ اولاد کے لیے سارے جہاں کی خوشیاں سمیٹ کر لادیں۔ وہ ان کے ناز نخرے اٹھاتے۔ ان کی تربیت کے لیے ان پر سختی کرنے کو برا سمجھتے۔ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کو اپنا مقصد بنالیتے۔ ان کو بہترین تعلیم دلوانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹادیتے۔ یہاں تک کہ ان کے بہتر مستقبل کی خاطر ان کو دوسرے ملکوں میں تعلیم کے لیے بھیج دیتے اور آخر کار یہ بچے بوڑھے والدین کو چھوڑ کر ترقی یافتہ ممالک میں سیٹ ہوجاتے۔ یہ نہ بھی ہو تب بھی نئی زندگی میں ماں باپ کا کردار بہت محدود تھا۔ لیکن ماں باپ اس سب کے باوجود بہت خوش تھے۔
والدین کے نزدیک دین کی بنیادوں سے بچوں کو واقف کرانے سے زیادہ اہم یہ تھا کہ بچوں کو منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنا سکھادیں۔ ایمان و اخلاق کی تعلیم دینے سے زیادہ ضروری یہ تھا کہ انتہائی مہنگے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم دلوادیں۔ خدا کی سچی محبت، اس کے بندوں سے محبت، انسانوں کی خدمت اور خلق خدا کی خیرخواہی کے بجائے بچے اپنے والدین سے مفاد پرستی کی تعلیم حاصل کرتے۔ بچوں کو خاندان کے بزرگوں کے بجائے ٹی وی کی تربیت گاہ کے حوالے کیا جاتا جہاں تہذیب و شرافت اور اخلاق و شائستگی کے بجائے خواہش پرستی اور مادیت پسندی کا ایک نیا سبق ہر روز پڑھایا جاتا۔ آخرت کی کامیابی کے بجائے دنیا اور اس کی کامیابی کو اہم ترین مقصد بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ خدا، دین اور آخرت بس رسمی سی باتیں تھیں۔ دینداری کی آخری حد یہ تھی کہ کسی مولوی صاحب کے ذریعے سے بچے کو قرآن مجید ناظرہ پڑھوا دیا جاتا۔ رہا اس کا مفہوم تو نہ وہ مولوی صاحب کو معلوم تھا نہ والدین کو اور نہ کبھی بچوں ہی کو معلوم ہوپاتا۔ یہ لوگ کبھی سمجھ کر پڑھ لیتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ قرآن دنیا کی فلاح کے ذکر سے اتنا ہی خالی ہے جتنا ان کی زندگیاں آخرت کے تذکرے سے۔ اس کا سبب پچھلی دنیا میں کسی کی سمجھ میں آیا ہو یا نہیں، آج بالکل واضح تھا۔ جو دنیا میں گزاری وہ تو زندگی تھی ہی نہیں۔ وہ تو محض امتحان کا پرچہ تھا یا راہ چلتے مسافر کا کسی سرائے میں گزارا ہوا ایک پہر۔ زندگی تو یہ تھی جو ختم نہ ہونے والی ایک انتہائی تلخ حقیقت بن کر آج سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔
(جاری ہے)