ابو_یحیی
گزشتہ سے پیوستہ
’’میں آج قیامت لگ رہی ہوں نا۔‘‘
عاصمہ نے ایک ادا سے جسم کو لہرایا اور کسی ماڈل کے انداز میں دو قدم چل کر لیلیٰ کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ لیلیٰ اپنی درسگاہ کے احاطے میں درختوں کے سائے تلے بچھائی گئی ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی جوس پی رہی تھی اور اس کے سامنے اس کی عزیز سہیلی عاصمہ لہراتی بل کھاتی اپنے نئے کپڑوں کی نمائش کررہی تھی۔ لیلیٰ خاموش رہی تو عاصمہ نے دوبارہ کہا:
’’میں کیسی لگ رہی ہوں؟‘‘
’’تم کپڑے پہن کر بھی برہنہ لگ رہی ہو۔‘‘
لیلیٰ نے بے نیازی سے جوس کا ایک سپ لیتے ہوئے اس کے لباس پر تبصرہ کیا۔
’’وہاٹ۔ ۔ ۔
’’سچ کہہ رہی ہوں۔ یہ لان کا پرنٹ ہے تو بہت شاندار، مگر اس سے تمھارا پورا جسم جھلک رہا ہے۔ آستینیں تو تم پہننے کی عادی ویسے ہی نہیں ہو۔ مگر اس لباس میں تو بازوؤں کے ساتھ تمھارے کندھے بھی برہنہ نظر آرہے ہیں۔‘‘
’’ویل ویل میڈم! ڈونٹ کنڈم می۔ میں نے آپ کے کہنے سے یہ ایسٹرن ڈریس پہنا ہے۔ ورنہ مجھے صرف جینز اور ٹی شرٹ پسند ہے۔‘‘
’’یہ آدھی بات ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ ٹائٹ جینز اور چست سلیو لیس ٹی شرٹ۔‘‘
’’اور کیا یہاں برقعہ پہن کر آؤں؟‘‘، عاصمہ نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
’’عاصمہ یہاں لڑکے بھی پڑھتے ہیں۔ ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘، لیلیٰ نے اسے ناصحانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’سوری یہ تمھاری رائے ہے، ورنہ ذمہ داری تو ان لڑکوں کی ہے کہ اپنی نظریں جھکاکر رکھیں۔ کوئی مولوی انھیں یہ کیوں نہیں بتاتا۔‘‘
’’یقیناً یہ ان کی ذمہ داری ہے، مگر کیا ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟‘‘
لیلیٰ کے اس جواب پر عاصمہ تنک کربولی :
’’کیا ہم اپنی پسند کے کپڑے بھی نہ پہنیں؟ خوبصورت بھی نظر نہ آئیں؟‘‘
’’ضرور پہنو اور ضرور خوبصورت لگو، مگر حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے۔‘‘
’’بس کرو یار۔ یہاں ایک میڈم شائستہ ہیں جو ہر وقت ایسے ہی موڈسٹی پر لیکچر دیتی رہتی ہیں اور دوسری تم ہو۔ سنو! ان کے نقش قدم پر مت چلو ورنہ ان کے جیسا ہی انجام ہوگا۔ ساری زندگی گھر بیٹھی رہ جاؤ گی موڈسٹ بن کر۔ تمھاری بھی کہیں شادی نہیں ہوگی۔‘‘
’’عاصمہ بری بات ہے۔ اتنی اچھی اور نیک ٹیچر ہیں اور تم ہو کہ ان کا مذاق اڑا رہی ہو۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تو اس میں ان کی موڈسٹی کا نہیں ہمارے معاشرے کا قصور ہے۔‘‘
’’ارے چھوڑو یار یہ فضول بحث۔ یہ دیکھو یہ جو لان کا پرنٹ میں نے پہنا ہے وہ سپر ماڈل ایکٹریس چمپا نے لانچ کیا ہے اور اس کا ڈیرائنز بھی انٹرنیشنل شہرت کا مالک ہے۔ پتہ ہے ایک سوٹ بیس ہزار کا ہے۔ تم نے تو ایگزیبیشن میں جانے سے انکار کردیا تھا، مگر وہاں بڑا مزہ آیا۔ آخر میں فیشن شو بھی تھا۔ اسی میں چمپا نے یہ اسٹائل پہنا تھا جسے میں نے کاپی کیا ہے۔ تم بھی بنوالو۔‘‘
’’اور اس کے بعد میرے گھر والے مجھے گھر سے نکال دیں گے۔‘‘
’’ڈونٹ وری۔ میں تمھیں اپنے ہاں رکھ لوں گی۔ ویسے بھی تمھارے گھر والے بڑے آرتھوڈوکس ہیں۔ تمھاری امی۔ ۔ ۔ ناعمہ آنٹی ہیں تو اچھی خاتون، بس ہروقت نصیحت کرتی رہتی ہیں اور تمھارے ابا۔ ۔ ۔ عبداللہ انکل۔ ۔ ۔ وہ تو لگتا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام پھیلاکر ہی دم لیں گے۔ ایسے ہی تمھارے باقی بہن بھائی ہیں، بس ایک تمھارے بڑے بھائی جمشید ہی ڈھنگ کے ہیں۔ اسی لیے شاید تم لوگوں کے ساتھ نہیں رہتے۔‘‘
’’ابا تو سمجھتے ہیں کہ وہی سب سے زیادہ ان سے دور ہوچکے ہیں۔ اور بقول امی کے انھوں نے مجھے بھی خراب کردیا ہے۔‘‘
’’کیا خرابی ہے تم میں۔ تم تو مجھے ویسے ہی بڑی نیک لگتی ہو۔‘‘
’’میں اور نیک؟ بس مارے باندھے بچپن کی عادت کی بنا پر روزہ نمازکرلیتی ہوں۔ باقی میں تمھارے ساتھ رہ کر تمھارے جیسے ہی کام کرتی ہوں۔‘‘
’’مگر یہ تو دیکھو کہ میرے ساتھ مزہ کتنا آتا ہے۔ پچاس برس کی زندگی ہے۔ خوب کھاؤ پیو اور انجوائے کرو۔‘‘
’’ہاں تمھارے ساتھ مزہ تو آتا ہے، مگر ابو کہتے ہیں کہ آخرت میں اگر ایک دن کے لیے بھی پکڑ ہوگئی تو وہاں کا ایک دن ہزاروں برس کا ہوتا ہے۔ اس میں پچاس سالہ زندگی کا سارا نشہ ہرن ہوجائے گا۔ ان کی تربیت سے میری امی، بہنیں اور بھائی انور سب ہی نیکی کی زندگی گزارتے ہیں۔‘‘
’’ڈونٹ ٹالک اباؤٹ دیم۔ وہ نیکی کی نہیں بوریت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس بور زندگی کے تصور سے مجھے وحشت ہوتی ہے۔ میں نے اسی لیے تمھارے گھر جانا اب کم کردیا ہے۔ ہر وقت جنت کی باتیں۔ ہر وقت آخرت اور نیکی کی باتیں۔ عبادت کرو، نماز پڑھو، روزہ رکھو، دوپٹہ سینے پر رکھو، سر ڈھانکو۔ آئی ڈونٹ لائک دز ربش۔‘‘
عاصمہ کی اس بات سے لیلیٰ کے چہرے پر کچھ ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے۔ وہ بولی:
’’ایسا مت کہو عاصمہ۔ میرے گھر والوں نے تم سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ وہ بیچارے جو کرتے ہیں خود کرتے ہیں یا مجھے تلقین کرتے ہیں۔ تم سے تو کچھ نہیں کہتے۔ صرف ایک دفعہ میرے ابا نے تم سے یہ کہا تھا کہ بیٹا تم میری بیٹی کی سہیلی ہو۔ دیکھو ایسی سہیلی بننا جو جنت میں بھی اس کے ساتھ رہے۔ ایسا نہ ہو کہ تم دونوں خدا کو ناراض کردو اور کسی بری جگہ تم دونوں کو ساتھ رہنا پڑے۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم دونوں ایک دوسرے کو الزام دو کہ تمھاری دوستی نے مجھے برباد کردیا۔‘‘
’’سوری بھئی تم تو برا مان گئیں۔ لیکن دیکھو تم نے اپنے ابا کی تقریر مجھے پھر سنادی۔ ان بے چاروں کے سر پر ہر وقت قیامت سوار رہتی ہے۔‘‘
عاصمہ کے اس جملے سے لیلیٰ کے چہرے کا رنگ بدلا۔ اس کے تیور دیکھ کر وہ فوراً بولی:
’’سوری سوری ناراض نہ ہونا۔ اب تمھارے ابا کو کچھ نہیں کہوں گی۔ چلو کینٹین چل کر کچھ کھاتے ہیں۔ مجھے بڑی بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
(جاری ہے)