ابو_یحیی
گزشتہ سے پیوستہ
اسی میدان میں ایک جگہ دو لڑکیاں پتھریلی زمین پر بے یار و مددگار بیٹھی ہوئی تھیں۔ دونوں کی آنکھیں بری طرح سوج رہی تھیں۔ صاف لگ رہا تھا کہ روتے روتے ان کی یہ حالت ہوچکی ہے۔ نڈھال جسم، پریشان چہرہ اور پژمردہ آنکھیں۔ ان کے دکھ کی کہانی ان کے چہرے پر دور سے پڑھی جاسکتی تھی۔ ان میں سے ایک زیادہ بدحال لڑکی دوسری سے کہنے لگی:
’’لیلیٰ! مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ سب کچھ سچ ہے۔ انسان موت کے بعد دوبارہ اس طرح زندہ ہوسکتے ہیں۔ دنیا کی زندگی کے بعد ایک نئی دنیا شروع ہوسکتی ہے۔ نہیں۔ ۔ ۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ کاش یہ ایک بھیانک خواب ہو۔ کاش میری آنکھ کھلے اور میں اپنے ٹھنڈے ائیر کنڈیشنڈ بیڈ روم کے نرم و نازک بستر پر لیٹی ہوئی ہوں۔ اور پھر کالج آکر میں تمھیں بتاؤں کہ آج میں نے ایک بہت بھیانک خواب دیکھا ہے۔ ۔ ۔ کاش یہ خواب ہو۔ کاش یہ خواب ہو۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ بلک بلک کر رونے لگی۔
لیلیٰ نے روتی ہوئی عاصمہ سے کہا:
’’یقین کرنے نہ کرنے سے اب کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ خواب نہیں حقیقت ہے۔ خواب تو وہ تھا جو ہم پچھلی دنیا میں دیکھ رہے تھے۔ آنکھ تو اب کھلی ہے عاصمہ! آنکھ تو اب کھلی ہے، مگر اب آنکھ کھلنے کا کیا فائدہ؟‘‘
کچھ دیر کے لیے خاموشی چھاگئی۔ پھر لیلیٰ حسرت کے ساتھ عاصمہ سے بولی:
’’کاش میری تم سے دوستی نہ ہوتی! کاش میں تمھارے راستے پر نہ چلتی!‘‘
’’ہاں۔ ۔ ۔ کاش میں تمھارے راستے پر چلتی تو ہم دونوں کا یہ حال نہ ہوتا۔ پتہ نہیں اب آگے کیا ہوگا۔‘‘، عاصمہ کا لہجہ بھی افسردہ تھا۔
خاموشی کے ایک وقفے کے بعد عاصمہ نے لیلیٰ سے مخاطب ہوکر کہا:
’’لیلیٰ یہ تو بتاؤ دنیا میں ہم کتنے دن رہے تھے۔‘‘
’’پتہ نہیں۔ ۔ ۔ ایک دن۔ ۔ ۔ یا دس دن۔ یا شاید بس ایک پہر۔ اس وقت تو یوں لگتا تھا کہ زندگی کبھی ختم نہ ہوگی۔ مگر اب تو سب کچھ بس ایک خواب لگتا ہے۔‘‘
’’مجھے تو اب اس خواب کی کوئی جھلک بھی یاد نہیں آرہی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے عاصمہ ماضی کے دھندلکوں میں کھوگئی۔ شاید وہ ماضی کے ورق الٹ کر کوئی ایسا پہر ڈھونڈ رہی تھی جس کی یاد آج تسلی کا کچھ سہارا بن جاتی۔ مگر اس کی یادداشت میں کوئی ایسا پہر نہیں آیا۔ جو کچھ یاد آیا وہ خود ایک فردقراردادِ جرم کی حیثیت رکھتا تھا۔