ابو_یحیی
ہم ایک دفعہ پھر میدان حشرمیں کھڑے تھے۔ بچوں سے متعلق ناعمہ کا سوال میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔ میں نے صالح سے کہا:
’’میں اپنے ان دونوں بچو ںسے ملنا چاہتا ہوں جو یہاں موجود ہیں۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ تم ذہنی طور پران دونوں سے ان کے برے حال میں ملنے کے لیے تیار ہوچکے ہو۔‘‘
’’ہاں شاید میں پہلے خود میں یہ حوصلہ نہیں پارہا تھا۔ میرے لیے تو اپنے استاد کا صدمہ بہت تھا۔ پھر اپنی بہو ھما کو برے حال میں دیکھ کر میرے اوسان خطا ہوگئے۔ مگر اب مجھے اندازہ ہوچکا ہے کہ ناگزیر کا سامنا کرنے کا وقت آگیا ہے۔‘‘
’’ہاں ابھی حشر کا دن ہے۔ یہ صرف جنت میں جانے کے بعد ہی ہوگا کہ انسان کے لیے ہر صدمہ اور ہرخوف و حزن ختم ہوجائے گا۔‘‘، صالح نے مجھ پر طاری ہونے والے غم کی توجیہ کی۔
’’یہی تعبیر قرآن پاک میں جنت کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ وہ جگہ جہاں ماضی کا کوئی پچھتاوہ ہے اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔‘‘، میںنے اس کی تائید میں قرآن پاک کی ایک آیت کا حوالہ دیا۔ جواب میں صالح نے ایک اور بہت اہم بات کو واضح کرتے ہوئے کہا:
’’ہاں جنت ایسی ہی جگہ ہے۔ حساب جب شروع ہوگا تو جنت و جہنم کو قریب لے آیا جائے گا۔ ہر شخص کی جنت یا جہنم کا جب فیصلہ ہوگا تو اسی وقت اس کو یہ بھی بتادیا جائے گا کہ اسے کیا نہیں ملا۔ یعنی اسے کس عذاب سے بچالیا گیا یا کس نعمت سے محروم کردیا گیا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘، میری آنکھوں میں تفصیل جاننے کی خواہش تھی۔
’’مطلب یہ کہ ایک شخص کے بارے میں اگر جنت کا فیصلہ ہوا تو اسی وقت اسے یہ بھی بتایا جائے گا کہ جہنم میں اس شخص کا ممکنہ ٹھکانہ کیا تھا، جس سے اسے بچالیا گیا ہے۔ اسی طرح فیصلہ اگر جہنم کا ہوا تو اس مجرم کو یہ بھی بتادیا جائے گا کہ جنت میں اس کا ممکنہ طور پر کیا مقام محفوظ تھا جو اس نے اپنی بداعمالیوں سے ضایع کردیا۔‘‘
’’یہ تو خود اپنی ذات میں ایک بہت بڑا عذاب ہوگا۔‘‘
’’ہاں اہل جنت کے لیے سب سے بڑی اور پہلی خوشی اس جہنم سے بچنا ہوگی اور اہل جہنم کے لیے سب سے پہلا عذاب یہ پچھتاوہ کہ کس اعلیٰ نعمت اور عظیم درجے سے وہ ابدی طور پر محروم ہوچکے ہیں۔ تمھیں کچھ دیر قبل بیان کردہ میری یہ بات یاد ہوگی کہ جس انسان نے روز ازل اپنے لیے جنت میں ترقی کا جتنا بڑا امکان چاہا، اس نے جہنم کے بھی اتنے ہی زیادہ پست مقام کا خطرہ مول لے لیا تھا۔ سو آج اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنت میں اعلیٰ مقام ملنے کی مسرت کے ہمراہ جہنم میں سخت ترین عذاب سے بچنے کی نوید بھی ملے گی اور جہنم میں پست ترین مقام کی مصیبت کے ساتھ جنت کے اعلیٰ ترین درجات سے محرومی کی حسرت بھی اسی تناسب سے زیادہ ہوگی۔‘‘
’’میرے خدایا!‘‘، میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
ہم یہ گفتگو کررہے تھے اور آہستہ آہستہ چلتے جارہے تھے۔ حشر کے احوال ابھی تک وہی تھے یا شاید کچھ سخت تر ہوچکے تھے۔ وہی رونا پیٹنا۔ وہی پریشانی و بدحالی۔ وہی حسرت و ندامت۔ وہی اضطراب و بے چینی۔ وہی حزن و مایوسی۔ ہر چہرے پر سوال تھا، مگر جواب کہیں نہیں تھا۔ ہر چہرے پر اضمحلال تھا، مگر سکون کہیں نہیں تھا۔ میں نے دل میں سوچا پتہ نہیں میری بیٹی اور بیٹے پر کیا بیت رہی ہوگی۔
(جاری ہے)