سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ ڈراپ ان پچز کا آئیڈیا شروع دن سے فضول قراردیا تھا، جب چیئرمین رمیز راجا نے ڈراپ ان پچز کا کہا تھا میں نے تبھی کہہ دیا تھا کہ اس کا فائدہ نہیں ، اب خود ہی ڈراپ ان پچز کی بجائے آسٹریلیا سے مٹی منگوانے کی بات ہو رہی ہے۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں آسٹریلیا سے مٹی منگوانے کا بھی زیادہ فائدہ نہیں ہوگا یہ لمبا عرصہ کار آمد نہیں ہوتی، مٹی کو باربار منگواتے رہنا پڑے گا یہ نہیں ہے کہ ایک بار مٹی منگوالی تو وہ سالہاسال چلے گی، موسم کا بھی مٹی پر اثر پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈراپ ان پچز وہاں استعمال کی جاتی ہیں جہاں سردی اور گرمی دونوں موسم میں الگ الگ سپورٹس ہو،لاہور قلندرز کے ڈائریکٹرکرکٹ آپریشنز عاقب جاوید نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کا انڈر 19ٹورنامنٹ پی ایس ایل کی طرز پرکرانیکی کوشش کی جارہی ہے، لیگ کرانیکا مقصد پراڈکٹ کو بیچ کر منافع کمانا اور ڈویلپمنٹ پر لگانا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ انڈر 19 لیگ کون دیکھے گا اور یہ لیگ کیسے کامیاب ہو گی؟انہوں نے کہا کہ ایک طرف چیئرمین رمیز راجا کہتے ہیں پی ایس ایل میں بڑے نام آنے چاہئیں تاکہ زیادہ مقبول ہو،لیکن انڈر 19 لیگ میں تو بڑے نام نہیں ہوں گے تو کیسے کامیاب ہو گی؟ کون دیکھے گا؟ کیسے پیسا آئے گا؟ لیگز میں لوگ بابر، شاہین، فخر اور باہر سے آنے والوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔عاقب جاوید نے کہا کہ میرے خیال میں انڈر19 لیگ کی بجائے پی ایس ایل فرنچائزز کو کہیں کہ وہ ڈویلپمنٹ اسکواڈز بنائیں،لاہور قلندرز نے ڈویلپمنٹ پروگرام کیا اس کا لاہور قلندرز کو فائدہ ہوا اور پاکستان کو بھی۔سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید کا ماننا ہے کہ بھارت کے پاس پیسا ہے اور وہ پیسے کے ساتھ معاملات بھی کنٹرول کرے گا،ماضی میں انگلینڈ اور آسٹریلیا معاملات کنٹرول کرتے تھے اب بھارت کرے گا، بھارت اپنی لیگ کی مدت بڑھا لے گا اسے کوئی نہیں روکے گا لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے اچھا نہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت اتنے پیسے دے دیتا ہے کہ انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی باقی لیگز میں دلچسپی ہی نہیں ہوتی، وہ دوسری لیگز میں آتے ہیں وقت گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مجھے دبئی میں ہونے والی لیگ سے بھی بڑا خطرہ نظر آ رہا ہے،دبئی کی لیگ میں بھی بھارتی سرمایہ کار ہیں، ہمیں سوچنا ہوگا ہم نے پی ایس ایل کو کیسے محفوظ بنانا ہے۔عاقب جاوید نے کہا کہ اپنی لیگ جو ابھی سانسیں لینا شروع ہوئی ہے یہ سوچیں ہم نے اسے کیسے آگے لے کر چلنا ہے۔