ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ‘گے بار’ کے قریب فائرنگ کے نتیجے میں 2 افراد قتل اور 21 زخمی ہوئے ہیں، ناروے پولیس نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دے کر ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ شہر میں جاری ‘پرائڈ مارچ’ کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کی روک تھام کے ذمہ دار ادارے ‘ناروے ڈومیسٹک انٹیلی جنس سروس’ (پی ایس ٹی) نے کہا ہے کہ اس حملے کو ‘اسلامی دہشت گردی’ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
پی ایس ٹی کے سربراہ راجر برج نے کہا کہ ملزم کی تشدد اور دھمکیوں کی طویل تاریخ ہے۔
راج برج کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس سروسز نے ملزم سے گزشتہ مہینے بات کی تھی لیکن اس پر غور نہیں کیا کہ اس کے ‘تشدد کے ارادے’ ہیں۔
ملزم کے وکیل جان کرسچن ایلڈن نے ناروے کی نیوز ایجنسی ‘این ٹی بی’ کو بتایا کہ انہیں توقع ہے کہ ان کے موکل کی ذہنی کیفیت کا جائزہ لینے کے لیے ‘جوڈیشل آبزرویشن’ میں رکھا جائے گا جیسا کہ عام طور پر ایسے کیسز میں ہوتا ہے۔
ناروے کے میڈیا نے اس کا نام زنیار ماتپور بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بچپن میں ایران سے ناروے آیا تھا۔
پولیس نے بتایا کہ حملے میں 21 لوگ زخمی جبکہ 10 شدید زخمی ہیں لیکن کسی کی بھی جان کو خطرہ نہیں ہے، آٹومیٹک ہتھیار اور ہینڈ گن کو قبضے میں لے لیا ہے۔