ابو_یحیی
پہلا_باب_روزِقیامت
زمین کے سینے پر ایک سلوٹ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ دریا اور پہاڑ، کھائی اور ٹیلے، سمندر اور جنگل، غرض دھرتی کا ہر نشیب مٹ چکا اور ہر فراز ختم ہوچکا تھا۔ دور تک بس ایک چٹیل میدان تھا اور اوپر آگ اگلتا آسمان۔ ۔ ۔ مگر آج اس آسمان کا رنگ نیلا نہ تھا، لال انگارہ تھا۔ یہ لالی سورج کی دہکتی آگ کے بجائے جہنم کے اُن بھڑکتے شعلوں کا ایک اثر تھی جو کسی اژدہے کی مانند منہ کھولے وقفے وقفے سے آسمان کی طرف لپکتے اور سورج کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرتے۔ جہنمی شعلوں کی لپک کا یہ خوفناک منظر اور بھڑکتی آگ کے دہکنے کی آواز دلوں کو لرزا رہی تھی۔
لرزتے ہوئے یہ دل مجرموں کے دل تھے۔ یہ غافلوں، متکبروں، ظالموں، قاتلوں اور سرکشوں کے دل تھے۔ یہ زمین کے فرعونوں اور جباروں کے دل تھے۔ یہ اپنے دور کے خداؤں اور زمانے کے ناخداؤں کے دل تھے۔ یہ دل اُن لوگوں کے تھے جو گزری ہوئی دنیا میں ایسے جیے جیسے انہیں مرنا نہ تھا۔ مگر جب مرے تو ایسے ہوگئے کہ گویا کبھی دھرتی پر بسے ہی نہ تھے۔ یہ خدا کی بادشاہی میں خدا کو نظرانداز کرکے جینے والوں کے دل تھے۔ یہ مخلوقِ خدا پر اپنی خدائی قائم کرنے والوں کے دل تھے۔ یہ انسانوں کے درد اور خدا کی یاد سے خالی دل تھے۔
سو آج وہ دن شروع ہوگیا جب ان غافل دلوں کو جہنم کے بھڑکتے شعلوں اور ختم نہ ہونے والے عذابوں کی غذا بن جانا تھا۔ ۔ ۔ وہ عذاب جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے پتھروں اور اِن پتھر دلوں کے منتظر تھے۔ آج اِن عذابوں کا ’یوم العید‘ تھاکہ ان کی ازلی بھوک مٹنے والی تھی۔ ان عذابوں کے خوف سے خدا کے یہ مجرم کسی پناہ کی تلاش میں بھاگتے پھررہے تھے۔ ۔ ۔ مگر اس میدانِ حشر میں کیسی پناہ اور کون سی عافیت۔ ہر جگہ آفت، مصیبت اور سختی تھی۔ ۔ ۔ اور ان پتھر دل مجرموں کی ختم نہ ہونے والی بدبختی تھی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خبر نہیں اس حال میں کتنے برس۔ ۔ ۔ کتنی صدیاں گزرچکی ہیں۔ یہ حشر کا میدان اور قیامت کا دن ہے۔ نئی زندگی شروع ہوچکی ہے۔ ۔ ۔ کبھی ختم نہ ہونے کے لیے۔ میں بھی حشر کے اِس میدان میں گُم سم کھڑا خالی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ میرے سامنے ان گنت لوگ بھاگتے، دوڑتے، گرتے پڑتے چلے جارہے ہیں۔ فضا میں شعلوں کے بھڑکنے کی آواز کے ساتھ لوگوں کے چیخنے چلانے، رونے پیٹنے اور آہ و زاری کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں، لڑ جھگڑرہے ہیں، الزام تراشی کررہے ہیں، آپس میں گتھم گتھا ہیں۔
کوئی سر پکڑے بیٹھا ہے۔ کوئی منہ پر خاک ڈال رہا ہے۔ کوئی چہرہ چھپارہا ہے۔ کوئی شرمندگی اٹھارہا ہے۔ کوئی پتھروں سے سر ٹکرارہا ہے۔ کوئی سینہ کوبی کررہا ہے۔ کوئی خود کو کوس رہا ہے۔ کوئی اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، دوستوں اور لیڈروں کو اپنی اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہراکر ان پر برس رہا ہے۔ ان سب کا مسئلہ ایک ہی ہے۔ قیامت کا دن آگیا ہے اور ان کے پاس اس دن کی کوئی تیاری نہیں۔ اب یہ کسی دوسرے کو الزام دیں یا خود کو برا بھلا کہیں، ماتم کریں یا صبر کا دامن تھامیں، اب کچھ نہیں بدل سکتا۔ اب تو صرف انتظار ہے۔ کائنات کے مالک کے ظہور کا، جس کے بعد حساب کتاب شروع ہوگا اور عدل کے ساتھ ہر شخص کی قسمت کا فیصلہ ہوجائے گا۔
یکایک ایک آدمی میرے بالکل قریب چلایا:
’’ہائے۔ ۔ ۔ اِس سے توموت اچھی تھی۔ اِس سے تو قبر کا گڑھا اچھا تھا۔‘‘
میں اردگرد کی دنیا سے بالکل کٹ چکا تھا کہ یہ چیخ نما آواز مجھے سوچ کی وادیوں سے حقیقت کے اس میدان میں لے آئی جہاں میں بہت دیر سے گم سم کھڑا تھا۔ لمحہ بھر میں میرے ذہن میں ابتدا سے انتہا تک سب کچھ تازہ ہوگیا۔ اپنی کہانی، دنیا کی کہانی، زندگی کی کہانی۔ ۔ ۔ سب فلم کی ریل کی طرح میرے دماغ میں گھومنے لگی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس بھیانک دن کے آغاز پر میں اپنے گھر میں تھا۔ یہ گھر ایک ظاہر بیں نظر کے لیے قبر کا تاریک گڑھا تھا، مگر دراصل یہ آخرت کی حقیقی دنیا کا پہلا دروازہ اور برزخ کی دنیا تھی۔ وہ دنیا جس میں میرے لیے ختم نہ ہونے والی راحت تھی۔ اُس روز مجھ سے میرا ہمدمِ دیرینہ اور میرا محبوب دوست صالح ملنے آیا ہوا تھا۔ صالح وہ فرشتہ تھا جو دنیا کی زندگی میں میرے دائیں ہاتھ پر رہا۔ اس کی قربت موت کے بعد کی زندگی میں میرے لیے ہمیشہ باعثِ طمانیت رہی تھی اور آج بھی ہمیشہ کی طرح ہماری پرلطف گفتگو جاری تھی۔ دوران گفتگو میں نے اس سے پوچھا:
’’یار یہ بتاؤ تمھاری ڈیوٹی میرے ساتھ کیوں لگائی گئی ہے؟‘‘
’’بات یہ ہے عبد اللہ کہ میں اور میرا ساتھی دنیا میں تمھارے ساتھ ڈیوٹی کیا کرتے تھے۔ وہ تمھاری برائیاں اور میں نیکیاں لکھتا تھا۔ تم مجھے دو منٹ فارغ نہیں رہنے دیتے تھے۔ کبھی اللہ کا ذکر، کبھی اس کی یاد میں آنسو، کبھی انسانوں کے لیے دعا، کبھی نماز، کبھی اللہ کی راہ میں خرچ، کبھی خدمت خلق۔ ۔ ۔ کچھ اور نہیں تو تمھارے چہرے پر ہمہ وقت دوسروں کے لیے مسکراہٹ رہتی تھی۔ اس لیے میں ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہتا تھا۔ تم نے مجھے تھکاکر مار ہی ڈالا تھا، لیکن ہم فرشتے تم انسانوں کی طرح تو ہوتے نہیں کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیں۔ اس لیے تمھاری اس ’برائی‘ کے جواب میں بھی دیکھ لوکہ میں تمھارے ساتھ ہوں اور تمھارا خیال رکھتا ہوں۔‘‘، صالح نے انتہائی سنجیدگی سے میری بات کا جواب دیا۔
میں نے اس کی بات کے جواب میں اسی سنجیدگی کے ساتھ کہا:
’’تم سے زیادہ ’برائی ‘میں نے الٹے ہاتھ والے کے ساتھ کی تھی۔ وہ میرا گناہ لکھتا، مگر میں اس کے بعد فوراً توبہ کرلیتا۔ پھر وہ بے چارہ اپنے سارے لکھے لکھائے کو بیٹھ کر مٹاتا اور مجھے برا بھلا کہتا کہ تم نے مٹوانا ہی تھا تو لکھوایا کیوں تھا۔ آخرکار اس نے تنگ آکر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس شخص سے میری جان چھڑائیں۔ اس لیے موت کے بعد سے اب تم ہی میرے ساتھ رہتے ہو۔‘‘
یہ سن کر صالح نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ پھر وہ بولا:
’’فکر نہ کرو حساب کتاب کے وقت وہ پھر آجائے گا۔ قانون کے تحت ہم دونوں مل کر ہی تمھیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کریں گے۔‘‘
یہ بات کہتے کہتے اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی کے آثار نمودار ہوگئے۔ وہ بولتے بولتے چپ ہوا اور سر جھکاکر ایک گہری خاموشی میں ڈوب گیا۔ میں نے اس کا یہ انداز آج تک نہ دیکھا تھا۔ چند لمحوں بعد اس نے سر اٹھایا تو اس کے چہرے سے ہمیشہ رہنے والی شگفتگی اور مسکراہٹ رخصت ہوچکی تھی اور اس کی جگہ خوف و حزن کے سایوں نے لے لی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا:
’’عبد اللہ! اسرافیل کو حکم مل چکا ہے۔ خدا کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ اہلِ زمین کی مہلت ختم ہوگئی ہے۔ تم کچھ عرصہ مزید برزخ کے اس پردے میں خدا کی رحمتوں کے سائے میں رہوگے، مگر میں اب رخصت ہورہا ہوں۔ اب میں تم سے اس وقت ملوں گا جب زندگی شروع ہوگی۔ تمہاری آنکھ کھلے گی تو قیامت کا دن شروع ہوچکا ہوگا۔ میں اس روز تم سے دوبارہ ملوں گا۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زندگی کے ہنگامے جاری تھے۔ بازاروں میں وہی چہل پہل اور گہماگہمی تھی۔ نیویارک، لاس اینجلس، لندن، پیرس، شنگھائی، دہلی، ماسکو، کراچی، لاہور ہر جگہ رونق میلے لگے ہوئے تھے۔ رات کو دن کردینے والی سیلابی روشنیوں میں20,20کرکٹ میچ اور فٹبال ورلڈ کپ کے مقابلے، ان کو دیکھتے اور تالیاں بجاتے تماشائی۔ پب (pub) اور بار میں شراب پیتے اور کلبوں میں اسٹرپ ٹیز (striptease) دیکھتے بدمست لوگ۔ ہالی وڈ اور بالی وڈ کی ایکشن اور تھرل فلموں میں اداکاروں کے جلوے اور ان جلووں کے شوقین تماش بین۔ءئ فلموں، ڈراموں، اسٹیج، ٹی وی، بیلی(belly) ڈانس اور فیشن شوز میں تھرکتی، مٹکتی، اپنے جسم کی نمائش کرتی ماڈلز اور اداکارائیں اور اس نمائش سے اپنی تجوریاں بھرتے سرمایہ دار۔ نئے دور کے نئے فاتحینِعالم۔ ۔ ۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان اور ان کو اپنا علم و ہنر بیچ کر اپنے مستبقل کے خواب بُننے والے باصلاحیت نوجوان۔ میڈیا کی چمک دمک، صحافت کے مرچ مصالحے اور بازارِ سیاست کے ماند نہ پڑنے والے مکر و فریب کے ہنگامے۔ بازاروں میں گھومتے اور خریداری کرتے مرد و خواتین اور اُن کو بلاتی رِجھاتی دکانیں اور دکاندار۔ امرا کے عشرت کدوں میں گونجتے ساز و آواز، غربا کے جھونپڑوں میں فقر و افلاس، شادیوں کی تقریبات میں خوشی کے نغمے، جنازوں اور ہسپتالوں میں غم و الم کے سائے۔ خدا کے نام پر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے اہل مذہب، غریبوں اور ان کے مسائل سے ہمیشہ کی طرح بے نیاز اہل ثروت۔ کرپشن کی ناپاک کمائی سے اپنی جیبیں بھرتے سرکاری ملازم اور ملاوٹ و ذخیرہ اندوزی سے اپنی تجوریاں بھرتے ہوئے حرام خور تاجر۔ عوام کا استحصال کرتے اہل اقتدار اور دنیا پر اپنا غلبہ قائم رکھنے کے منصوبے بناتی سپر پاورز، سب اپنے اپنے مشغلوں اور کاموں میں مگن تھے۔
اہلِ زمین جو ہمیشہ سے کرتے آئے تھے، وہی کررہے تھے۔ ظلم و فساد کی داستانیں، دھوکہ و فریب کی کہانیاں، حرص و ہوس کی دوڑ، غفلت اور سرکشی کے رویے، خدا اور آخرت فراموشی، سیاسی ہنگامے، معاشی جدوجہد، مذہبی جھگڑے، طبقاتی کشمکش۔ ۔ ۔ ہر چیز ہمیشہ کی طرح جاری تھی۔ پیغمبر تو صدیوں پہلے آنے بند ہوگئے تھے۔ ایگریکلچرل (agricultural) ایج، انڈسٹریل (industrial) ایج سے بدلی اور انڈسٹریل ایج، انفارمیشن (information) ایج سے، مگر انسانی رویے نہیں بدلے۔ ان کے غم بھی نہیں بدلے۔ وہی کاروبار اور روزگار کی پریشانیاں، وہی عشق و محبت کی ناکامیاں، وہی موت اور بیماری کے مسائل۔ اس وقت بھی انسانوں کے ہاں ہر غم تھا، سوائے غم آخرت کے۔ ہر خوف تھا، سوائے خوفِ خدا کے۔ آسمان کی آنکھ یہ دیکھ رہی تھی کہ خدا کی زمین کو ظلم و فساد سے بھردینے والا انسان اب دھرتی کا ناقابلِ برداشت بوجھ بن گیا ہے۔ سو انسان کو بار بار ہلایا گیا۔ نبی آخر الزماں کی پیش گوئیاںپوری ہونے لگیں۔ ننگے پاؤں بکریاں چرانے والے عربوں نے دنیا کی بلند ترین عمارتیں بنالیں، مگر انسانیت ہوش میں نہیں آئی۔ نوح کے تیسرے بیٹے یافث کی اولاد یعنی یاجوج و ماجوج کی نسل دنیا کے پھاٹکوں کی مالک بن گئی۔ عظمت کی ہر بلندی سے یہی یاجوج و ماجوج ساکنانِ دنیا پر یلغار کرنے لگے۔ برطانیہ، روس، امریکہ اور چین۔ ۔ ۔ ایک کے بعد ایک دنیا کے اقتدار کی مسند پر فائز ہوتے گئے، آسمانی صحیفوں کی تمام پیش گوئیاں پوری ہوگئیں، مگر انسانیت پھر بھی ہوش میں نہ آئی۔ سونامی آئے، سیلاب آئے، زلزلے آئے، مگر انسانیت غفلت سے نہ نکلی۔ خدا نے انفارمیشن ایج پیدا کردی۔ اس کے عجمی بندوں نے نبی عربی کے پیغام کو اٹھایا اور انسانیت پر حجت تمام کردی، مگر انسانیت پھر بھی نہ سنبھلی۔ قیامت سے قبل قیامت کی منظر کشی آخری درجے میں کرکے انسانیت کو جھنجھوڑ دیا گیا، مگر لوگوں کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ سو جسے آخرکار آنا تھا، وہ آگئی۔ اسرافیل نے خدا کا حکم سنا اور صور ہاتھ میں اٹھالیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قیامت آگئی۔
سورج کی بساط لپیٹ دی گئی۔ تارے بے نور ہونے لگے۔ ہمالیہ جیسے پہاڑ ہوا میں روئی کے مانند اُڑنے لگے۔ ۔ ۔ کہسار ریگزار بن گئے۔ سمندروں نے پہاڑ جتنی اونچی لہریں اٹھانا شروع کردیں۔ ۔ ۔ میدان سمندر بن گئے۔ زمین نے اپنے آتش فشاں باہر اگل دئے۔ ۔ ۔ وادیوں میں آگ کے دریا بہنے لگے۔ دھرتی نے اپنے سارے زلزلے باہر نکال پھینکے۔ ۔ ۔ زمین الٹ پلٹ ہوگئی۔ شہر کھنڈروں میں بدلنے لگے۔ عمارتیں خاک ہونے لگیں۔ آبادیاں قبرستانوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔
کمزور انسان کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی۔ وہ جو کچھ دیر قبل نئے گھر کی تعمیر کے منصوبے بنارہے تھے، نئی دکان اور نئے کاروبار کی منصوبہ بندی کررہے تھے، شادی اور نکاح کی امیدیں باندھ رہے تھے، نئی کار اور نئے کپڑوں کی خریداری کررہے تھے، اولاد کے مستقبل کی پلاننگ میں مصروف تھے۔ ۔ ۔ اپنے تمام ارادے اور سارے عزائم بھول گئے۔ مائیں دودھ پیتے بچے چھوڑ کر بھاگیں۔ حاملہ عورتوں کے حمل گرگئے۔ طاقتور کمزوروں کو کچلتے اور نوجوان بوڑھوں کو چھوڑتے بھاگنے لگے۔ سونا چاندی سر راہ پڑے ہیں، نوٹ ہوا میں اُڑ رہے ہیں، قیمتی سامان بکھرا ہوا ہے، مگر کوئی لینے والا، سمیٹنے والا نہیں۔ گھر۔ ۔ ۔ کاروبار۔ ۔ ۔ رشتے دار۔ ۔ ۔ ناطہ و اسباب۔ ۔ ۔ سب غیر اہم ہوچکے ہیں۔ ہر نفس صرف اپنی فکر میں ہے۔ آج انسان سب کو بھول گیا ہے، صرف ایک خدا کو پکار رہا ہے، مگرکوئی جواب نہیں آتا۔ دہریے اور ملحد بھی نامِ خدا کی دہائی دے رہے ہیں، مگر کوئی جائے عافیت نظر نہیں آتی۔ بربادی کے سائے پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔ موت ہر جگہ تعاقب کررہی ہے۔ مصیبت نے ہر طرف سے گھیر لیا ہے۔ آخر کار زندگی موت سے شکست کھاگئی۔ زندگی ختم ہوگئی۔ ۔ ۔ مگر اس لیے کہ زندگی کو اب شروع ہونا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہوا کی تیز سرسراہٹ کی آواز میرے کانوں میں آنے لگی۔ بارش کی کچھ بوندیں میرے چہرے پر گریں۔ مجھے ہوش آنے لگا۔ میں بہت دیر تک اُٹھنے کی کوشش کرتا رہا، مگر میرے حواس مکمل طور پر بیدار نہ ہوسکے۔ کافی دیر میں اسی حال میں رہا۔ اچانک میرے کانوں میں ایک مانوس آواز آئی:
’’عبد اللہ! اٹھو جلدی کرو۔‘‘، یہ میرے ہمدمِ دیرینہ، میرے یارِ غار صالح کی آواز تھی۔ اس کی آواز نے مجھ پر جادو کردیا اور میں ایک دم سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’میں کہاں ہوں؟‘‘، یہ میرا پہلا اور بے ساختہ سوال تھا۔
’’تم بھول گئے، میں نے تم سے کیا کہا تھا۔ قیامت کا دن شروع ہوگیا ہے۔ اسرافیل دوسرا صور پھونک رہے ہیں۔ اس وقت اس کی صدا بہت ہلکی ہے۔ ابھی اس کی آواز سے صرف وہ لوگ اٹھ رہے ہیں جو پچھلی زندگی میں خدا کے فرمانبرداروں میں سے تھے۔‘‘، اس نے میرا کندھا تھپکتے ہوئے کہا۔
’’اور باقی لوگ؟‘‘، میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
’’تھوڑی ہی دیر میں اسرافیل کی آواز بلند ہوتی چلی جائے گی اور اس میں سختی آجائے گی۔ پھر یہ آواز ایک دھماکے میں بدل جائے گی۔ اس وقت باقی سب لوگ بھی اُٹھ جائیں گے، مگر وہ اُٹھنا بہت مصیبت اور تکلیف کا اُٹھنا ہوگا۔ ہمیں اس سے پہلے ہی یہاں سے چلے جانا ہے۔‘‘، اس نے تیزی سے جواب دیا۔
’’مگر کہاں؟‘‘، یہ سوال میری آنکھوں سے جھلکا ہی تھا کہ صالح نے اسے پڑھ لیا۔
’’تم خوش نصیب ہو عبداللہ! ہم عرش کی طرف جارہے ہیں۔‘‘، وہ تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا بولا۔پھر مزید تفصیل بتاتے ہوئے اس نے کہا:
’’اس وقت صرف انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہی اپنی قبروں سے باہر نکلے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کامیابی کا فیصلہ دنیا ہی میں ہوگیا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خد اکو بِن دیکھے مان لیا تھا، اُسے چھوئے بغیر پالیا تھا اور اُس کی صدا اُس وقت سن لی جب کان اُس کی آواز سننے سے قاصر تھے۔ یہ لوگ اُس کے رسولوں پر ایمان لائے اور اُن کی نصرت اور اطاعت کا حق ادا کردیا۔ اِن کی وفاداری اپنی مذہبی شخصیات، اپنے لیڈروں، اپنے فرقے کے اکابرین اور اپنے باپ دادا کے عقائد اور تعصبات سے نہ تھی بلکہ صرف اور صرف خدا اور اُس کے رسولوں سے تھی۔ انہوں نے خداپرستی کے لیے ہر دکھ جھیلا، ہر طعنہ سنا اور ہر سختی برداشت کی۔ اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار کو اپنی زندگی بنایا۔ خدا سے محبت اور مخلوق پر شفقت کے ساتھ زندگی گزاری۔ عبداللہ! آج ان لوگوں کے بدلے کا وقت ہے۔ اور یہ ہے ان کے بدلے کا آغاز۔‘‘
صالح کی باتیں سنتے ہوئے میرے چہرے سے حیرت اور اس کے چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی۔
’’مگر میں تو جنت میں تھا اور۔ ۔ ۔ ‘‘، صالح نے ہنستے ہوئے میری بات کاٹ کر کہا:
’’شہزادے وہ برزخ کا زمانہ تھا۔ خواب کی زندگی تھی۔ اصل زندگی تو اب شروع ہوئی ہے۔ جنت تو اب ملے گی۔ ویسے وہ بھی حقیقت ہی تھی۔ دیکھ لو تمھاری اور میری دوستی وہیں پر ہی ہوئی تھی۔‘‘
میں اپنا سر جھٹک کر اسے دیکھنے لگا۔ کچھ کچھ میری سمجھ میں آرہا تھا اور بہت کچھ سمجھنا ابھی باقی تھا۔ مگر اس لمحے میں نے اپنے آپ کو صالح کے حوالے کرنا زیادہ بہتر محسوس کیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صالح سے میری دوستی اُس وقت ہوئی تھی جب میں نے موت کے بعد یا زیادہ درست الفاظ میں فانی دنیا کے دھوکے سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ لوگ موت سے بہت ڈرتے ہیں، مگر میرے لیے موت ایک انتہائی خوشگوار تجربہ تھی۔ ملک الموت عزرائیل کا نام دنیا میں دہشت کی ایک علامت ہے، مگر میرے سامنے وہ ایک انتہائی خوبصورت شکل میں آئے تھے۔ انہوں نے بہت محبت اور شفقت سے میری شخصیت یعنی میری روح کو میرے جسم سے جدا کیا۔ میرا جسمانی وجود سابقہ دنیا میں رہ گیا اور میری اصل شخصیت کو انھوں نے اِس نئی دنیا میں جس کا نام عالم برزخ تھا، منتقل کردیا۔ برزخ کا مطلب پردہ ہوتا ہے۔ ملک الموت کے ظاہر ہوتے ہی میرے اور پچھلی دنیا کے درمیان ایک پردہ حائل ہوگیا۔ جس کی بنا پر اُس دنیا سے میرا رابطہ ختم ہوگیا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میری جدائی کے غم میں میرے اہل خانہ پر کیا گزر رہی تھی، لیکن مجھے یقین تھا کہ میری تربیت کی بنا پر وہ خدا کی رضا پر صابر و شاکر ہوں گے۔
میں اپنی اصل شخصیت سمیت اب ایک نئی دنیا میں تھا۔ یہ برزخ کی دنیا تھی۔ اِس نئی دنیا میں ملک الموت عزرائیل نے مجھے جس شخص کے حوالے کیا، وہ یہی صالح تھا۔ اس کے ساتھ بہت سے خوش شکل، خوش لباس اور خوش گفتار فرشتے موجود تھے۔ اِن سب کے ہاتھوں میں گلدستے، زبان پر مبارکبادیاں اور سلامتی کی دعائیں تھیں۔ مبارک سلامت کے اس ماحول میں وہ سب مل کر مجھے یقین دلارہے تھے کہ آزمائش کے دن ختم اور جنت کی عظیم کامیابی کے دن شروع ہوگئے۔ اس وقت صالح نے مجھے یہ خوشخبری دی کہ برزخی زندگی کے آغاز پر میرے لیے پہلا انعام پروردگارِ ارض و سماوات کے حضور پیشی ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ اعزاز ہر شخص کو نہیں ملتا۔ میرے لیے یہ خوشخبری جنت کی خوشخبری سے بھی زیادہ قیمتی تھی۔
ان سب کی معیت میں میرا سفر شروع ہوا۔ یہ نئی دنیا تھی۔ جہاں فاصلے، مقامات، زمان (time) اور مکان (space) کے معنی اس طرح بدل گئے تھے کہ وہ الفاظ کے کسی جامے میں بیان نہیں ہوسکتے۔ میں مستی و سرشاری کے عالم میں یہ سفر طے کررہا تھا کہ ایک جگہ ہم روک دیے گئے۔ اعلان ہوا کہ زمین کے فرشتوں کی حد آگئی ہے۔ سب یہاں رک جائیں۔ صرف صالح کو میرے ساتھ آگے بڑھنے کی اجازت ملی۔ عالمِ سماوات کا سفر شروع ہوا۔ جلد ہی ہم ایک اور جگہ پہنچ کر رک گئے۔ یہاں جبریلِ امین خاص طور پر میرے استقبال کے لیے آئے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ کہنے لگے:
’’عبد اللہ! تم مجھ سے پہلی دفعہ مل رہے ہو، مگر میں تم سے پہلے بھی کئی دفعہ مل چکا ہوں۔‘‘
پھر ہولے سے میرا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولے:
’’آقا کے حکم پر کئی دفعہ میں نے تمھاری مدد کی تھی۔ مگر ظاہر ہے تم اس وقت یہ نہیں جانتے تھے۔‘‘
آقا کے لفظ سے میرے چہرے پر ایک روشنی پھوٹی، جسے جبریل کے نورانی وجود نے الفاظ میں ڈھلنے سے قبل ہی پڑھ لیا اور کہا:
’’آؤ چلو! میں تمھیں تمھارے ان داتا سے ملاتا ہوں۔ نبیوں کے علاوہ یہ اعزاز بہت کم انسانوں کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس طرح بارگارہِاحدیت میں پیش کیے جائیں۔ تم واقعی بہت خوش نصیب ہو۔‘‘
ہم آگے بڑھے تو میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا جس کا پوچھ لینا ہی مناسب خیال کرتے ہوئے میں نے جبریل علیہ السلام سے عرض کیا:
’’کیا ہم سدرۃ المنتہیٰ کی طرف جارہے ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘، جبریل امین نے جواب دیا۔ پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’تمھارے ذہن میں غالباً معراج والی بات ہے۔ وہ انبیا کا راستہ ہے۔ انبیا کی حضوری کے مقامات بہت اعلیٰ ہوتے ہیں۔ پھر انہیں مشاہدات بھی کرائے جاتے ہیں۔ تمھارا راستہ بالکل الگ ہے۔ تمھیں صرف بارگاہِ الوہیت میں سجدے کا اعزاز بخشنے کے لیے بلایا گیا ہے۔ اور غالباً تمھاری وجہ سے صالح کو بھی یہاں تک آنے کی اجازت ملی ہے۔‘‘
اس لمحے میں نے صالح کو دیکھا جس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ جبریل امین نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’خدا کی ہستی لامحدود ہے۔ اس کے مقامات بھی لامحدود ہیں۔ تمھاری دنیا میں ان مقامات کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ جو کچھ تم دنیا میں جانتے تھے وہ بہت محدود اور کم تھا۔ آج مرنے کے بعد تمھاری آنکھیں کھلی ہیں۔ اب تم وہ دنیا دیکھنا شروع ہوگئے ہو جس کے کمالات کی کوئی حد نہیں۔‘‘
میں جو کچھ دیکھ رہا تھا وہ واقعی جبریل امین کی سچائی کا ثبوت تھا۔ میں نے دل میں سوچا کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں کفر و نافرمانی کے حال میں نہیں مرا۔ وگرنہ آنکھیں تو اُس وقت بھی کھلتیں، مگر جو کچھ دیکھنے کو ملتا وہ بہت زیادہ برا اور بھیانک ہوتا۔
جبریل امین کی معیت میں ہم مختلف مراحل طے کرتے ہوئے حاملین عرش کے قریب پہنچے۔ یہاں نور، رنگ اور روشنی کا ایک ایسا حسین اور لطیف امتزاج چھایا ہوا تھا جو بیان کی گرفت سے باہر تھا۔ حاملین عرش کے سر جھکے ہوئے تھے۔ چہرے پر خشیت کا اثر اور طمانیت کا نور پھیلا ہوا تھا۔ جبریل امین نے بتایا:
’’پروردگار کی بارگاہ کا ہر حکم انہی فرشتوں کی وساطت سے نیچے جاتا اور نیچے والوں کا ہر فعل انہی کے ذریعے سے عالم کے پروردگار کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔‘‘
میں قربِ الٰہی کے اس مقام کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے بھی نظر اٹھاکر مجھے دیکھا اور لمحہ بھر کے لیے ان کے چہروں پر مسکراہٹ آئی۔ میرا حوصلہ بڑھا۔ میں نے قدم عرش کی سمت بڑھائے۔ میرے روئیں روئیں سے اُس ہستی کی حمد و ثنا بلند ہونے لگی جس سے ملنے کی خواہش میں ساری زندگی گزاردی تھی۔
پھر چلتے چلتے مجھ پر نجانے کیوں لزرہ طاری ہونے لگا۔ خدا سے ملنے کی شدین ترین خواہش پر اس کی عظمت کا احساس غالب آگیا۔ اس لمحے مجھ پر اتنا شدید رعب طاری ہوا کہ میں گھبرا کر واپس پیچھے ہٹنے لگا۔ گرچہ عرش ابھی بہت دور تھا، مگر صاحبِعرش کی عظمت کے احساس سے میری ہمت ٹوٹ گئی۔ مجھے لگا کہ اس لمحے میرا وجود کرچی کرچی ہوکر فضا میں بکھر جائے گا۔ شاید یہی ہوتا، مگر ایسے میں میرے کانوں میں جبریل امین کی آواز آئی:
’’یہیں سجدے میں گرجاؤ۔ اس مقام سے آگے صرف انبیاے کرام جاتے ہیں۔‘‘
میں اور صالح دونوں سجدے میں چلے گئے۔ جسے بن دیکھے سجدہ کیا تھا، آج پہلی دفعہ اسے دیکھ کر سجدہ کیا تھا۔ دیکھا تو خیر کیا تھا۔ بس آثار دیکھ لیے تھے۔
یہ سجدہ کتنا طویل اور کتنا لذید تھا، مجھے نہیں یاد۔ جس نے سورج کو روشنی کی ردا اور چاند کو نور کی قبا پہنائی، پھولوں کو مہک اور تتلیوں کو رنگ کا لباس پہنایا، تاروں کو چمک کا لہجہ اور کلیوں کو چٹک کی آواز عطا کی، آسمان کو رفعت کا تاج اور سمندروں کو وسعت کا تخت بخشا، زمین کو زرخیزی کی نعمت اور دریاؤں کو بہاؤ کا حسن عطا کیا اور جس نے انسان کو بیان کا وصف اور نزولِ قرآن کا شرف بخشا، اس کے قدموں میں گزارا ہوا ایک ایک لمحہ ہفت اقلیم کی بادشاہی سے بڑھ کر تھا۔ مگر اس لمحے کو تمام ہونا ہی تھا۔ حاملین عرش کی دلکش صدا بلند ہوئی:
’’ھو اللہ لا الہ الا ھو۔‘‘
یہ اعلان تھا کہ صاحب عرش کلام کررہا ہے۔ آواز آئی:
’’میں اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
ہر سُر سے لذیذ تر اس صدا میں وہ سحر تھا کہ میرا وجود سراپا گوش ہوگیا۔ میرا پورا جسم اور اس کی ہر ہر قوت کانوں اور سماعت میں سمٹ آئی۔ میں مزید کچھ سننے کا منتظر تھا۔ مگر گفتگو میں ایک وقفہ آگیا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ شاید اب مجھے کچھ کہنا چاہیے۔ جو پہلی بات میری زبان پر آئی وہ یہ تھی:
’’مالک! زندگی میں یہی ایک حقیقت تو جانی ہے۔‘‘
میری یہ بات میرے اپنے کان بمشکل سن سکے تھے۔ مگر حاضر و غائب کے جاننے والے اور دلوں کے بھید پالینے والے تک وہ پہنچ گئی تھی۔ جواب ملا:
’’مگر یہ بات جاننے والا ہر شخص یہاں تک نہیں آتا۔ ۔ ۔ جانتے ہو عبد اللہ! تم یہاں تک کیسے آگئے؟‘‘
اس دفعہ میرے شہنشاہ کے لہجے کے جاہ و جلال میں اپنائیت کا رنگ جھلک رہا تھا۔
’’اس لیے کہ تمھاری زندگی کا مقصد لوگوں کو میرے بارے میں بتانا تھا۔ میری ملاقات سے خبردار کرنا تھا۔ تم نے میری یاد کو۔ ۔ ۔ میرے کام کو اپنی زندگی بنالیا۔ یہ اس کا بدلہ ہے۔‘‘
آسمان و زمین کے مالک کی گفتگو اور آواز سنتے رہنا میری زندگی کی شدید ترین خواہش بن چکی تھی، مگر ایک دفعہ پھر مالک الملک اپنی بات کہنے کے بعد ٹھہرگئے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرا رب مجھے بولنے کا موقع دے رہا ہے۔ میں نے عرض کیا:
’’کیا میں آپ کے پاس یہاں رُک سکتا ہوں؟‘‘
’’مجھ سے کوئی دور نہیں ہوتا۔ نہ میں کسی سے دور ہوتا ہوں۔ میرا ہر بندہ اور میری ہر بندی جو میری یاد میں جیے ، وہ میرے پاس رہتا ہے۔ ۔ ۔ اور کچھ۔ ۔ ۔ ‘
آخری بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ ملاقات کا وقت ختم ہورہا ہے۔ میں نے عرض کیا:
’’میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘
’’حکم کا وقت گزرگیا ہے۔ اب تو تمھیں حکمران بنانے کا وقت آرہا ہے۔ فی الحال تم واپس جاؤ۔ زندگی ابھی شروع نہیں ہوئی۔‘‘
میں نے چلتے چلتے عرض کی:
’’آپ قیامت کے دن مجھے بھولیں گے تو نہیں۔ میں نے اس دن کی وحشت اور آپ کی ناراضی کا بہت ذکر سن رکھا ہے۔‘‘
فضا میں ایک حسین تبسم بکھر گیا۔ کھنکتے ہوئے لہجے میں صدا آئی:
’’بھولنے کا عارضہ تم انسانوں کو ہوتا ہے۔ بادشاہوں کا بادشاہ۔ ۔ ۔ تمھارا مالک، تمھارا رب کچھ نہیں بھولتا۔ رہا میرا غصہ، تو وہ میری رحمت پر کبھی غالب نہیں آتا۔ تم نے تو زندگی بھر مجھے امید اور خوف کے ساتھ یاد رکھا ہے۔ میں بھی تمھیں درگزر اور رحمت کے ساتھ یاد رکھوں گا۔ لیکن۔ ۔ ۔ ‘‘، ایک لمحے کے شاہانہ توقف کے بعد ارشاد ہوا:
’’تمھاری تسلی کے لیے میں صالح کو تمھارے ساتھ کررہا ہوں۔ یہ ہر ضرورت کے موقع پر تمھارا خیال رکھے گا۔‘‘
یہ تھی میری اور صالح کی پہلی ملاقات کی روداد اور اس کے میرے ساتھ رہنے کی اصل وجہ۔ عالمِ برزخ میں میری زندگی جسم کے بغیر تھی۔ اس میں میرے احساسات، جذبات، تجربات اور مشاہدات کی کیفیت ویسی ہی تھی جیسی خواب میں ہوتی ہے۔ یعنی غیر مادی مگر شعور سے بھرپور زندگی جس میں مجھے ان نعمتوں کا مکمل احساس رہتا جو جنت میں مجھے ملنے والی تھیں۔ صالح میری خواہش پر وقفے وقفے سے مجھ سے ملنے آتا رہا۔ ہر دفعہ وہ مجھے نت نئی چیزوں کے بارے میں بتاتا رہتا اور میرے ہر سوال کا جواب دیتا۔ آہستہ آہستہ ہماری دوستی بڑھتی گئی۔ پھر آخری ملاقات میں اِس نے مجھے بتایا تھا کہ ’زندگی‘ شروع ہونے جارہی ہے۔ اور اب میں اس کے ساتھ میدانِ حشر کو تیزی کے ساتھ عبور کرتا ہوا عرش کی طرف بڑھ رہا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چلتے چلتے میں نے اردگرد دیکھا تو تاحد نظر ایک ہموار میدان نظر آیا۔ ماحول کچھ ایسا ہورہا تھا جیسا فجر کی نماز کے بعد اور سورج نکلنے سے قبل کا ہوتا ہے۔ یعنی ہلکا ہلکا اجالا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ اس وقت اس میدان میں کم ہی لوگ نظر آرہے تھے۔ مگر جو تھے ان سب کی منزل ایک ہی تھی۔ میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ ان میں سے کوئی نبی یا رسول بھی ہے؟ میں نے صالح کو دیکھا۔ اسے معلوم تھا کہ میں کیا پوچھ رہا ہوں۔ کہنے لگا:
’’وہ سب کے سب پہلے ہی اٹھ چکے ہیں۔ ہم انہی کے پاس جارہے ہیں۔‘‘
’’کیا ان سے ملاقات کا موقع ملے گا؟‘‘، میں نے بچوں کی طرح اشتیاق سے پوچھا۔
وہ چلتے چلتے رکا اور دھیرے سے بولا:
’’اب انہی کے ساتھ زندگی گزرے گی۔ عبداللہ! تم ابھی تک نہیں سمجھ پائے کہ کیا ہورہا ہے۔ آزمائش ختم ہوچکی ہے۔ دھوکہ ختم ہوگیا ہے۔ اب زندگی شروع ہورہی ہے جس میں اچھے لوگ اچھے لوگوں کے ساتھ رہیں گے اور برے لوگ ہمیشہ برے لوگوں کے ساتھ رہیں گے۔‘‘
اصل میں بات یہ تھی کہ میں ابھی تک شاک (Shock) سے نہیں نکل سکا تھا۔ دراصل ابھی تک نئی دنیا کا سارا تعارف عالمِ برزخ میں ہوا تھا۔ وہ ایک نوعیت کی روحانی دنیا تھی۔ مگر یہاں حشر میں تو سب کچھ مادی دنیا جیسا تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں، احساسات، زمین آسمان ہر چیز وہی تھی، جس کا میں پچھلی دنیا میں عادی تھا۔ وہاں میرا گھر تھا، گھر والے تھے، میر امحلہ، میرا علاقہ، میری قوم۔ ۔ ۔ یہ سب سوچتے سوچتے میرے ذہن میں ایک دھماکہ ہوا۔ میں نے رک کر صالح کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا:
’’میرے گھر والے کہاں ہیں؟ میرے رشتہ دار، احباب سب کہاں ہیں؟ ان کے ساتھ کیا ہوگا؟ وہ نظر کیوں نہیں آرہے؟‘‘
صالح نے مجھ سے نظریں چراکر کہا:
’’جن سوالوں کا جواب مجھے نہیں معلوم وہ مجھ سے مت پوچھو۔ آج ہر شخص تنہا ہے۔ کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا۔ اگر ان کے اعمال اچھے ہیں، تو یقین رکھو وہ تم سے آملیں گے۔ ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو۔ ۔
صالح جملہ نامکمل چھوڑ کر خاموش ہوگیا۔ اس کی بات سن کر میرا چہرہ بھی بجھ گیا۔ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میرا حوصلہ بڑھایا اور کہا:
’’اللہ پر بھروسہ رکھو۔ تم خدا کے لشکر میں لڑنے والے ایک سپاہی تھے۔ اس لیے پہلے اُٹھ گئے ہو۔ باقی لوگ ابھی اٹھ رہے ہیں۔ انشاء اللہ وہ لوگ بھی خیر کے ساتھ تم سے مل جائیں گے۔ ابھی تو تم آگے چلو۔‘‘
اس کی تسلی سے مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں سبک رفتاری سے اس کے ساتھ چلنے لگا۔
جاری ہے۔۔۔