ڈاکٹر لیاقت صاحب اپنے کلینک پر تشریف فرما رہے مگر پچھلے دو دن سے کوئی مریض نہیں آیا تھا ، ڈاکٹر صاحب تھوڑا سا پریشان دکھائی دے رہے۔ بجلی کا بل بھی ساڑھے سات ہزار روپے آیا ہوا تھا اور بل جمع کروانے کی آخری تاریخ میں صرف تین دن باقی تھے۔
دوسری جانب بیگم کے بھانجے اور بھتیجے کی شادی میں بھی ڈیڑھ دو ہفتے باقی تھے، بیگم اور بچوں کے کپڑوں کی خریداری کے علاوہ لین دین کے لیے اچھی خاصی رقم درکار تھی۔ انگلیوں میں پن دبائے اور ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھے ڈاکٹر صاحب آمدن اور اخراجات کے حساب کتاب میں مصروف تھے کہ اسی دوران ”السلام علیکم” کی نسوانی آواز نے انہیں چونکہ دیا۔ سر اٹھا کر دیکھا تو ایک خاتون جو کہ اپنے حلیے سے کسی امیر گھرانے اور ماڈرن گھرانے کی فرد دکھائی دے رہی تھیں۔ خاتون کے ساتھ ایک ڈیڑھ سال کا بچہ بھی تھا۔
خاتون ڈاکٹر صاحب کی ٹیبل کی دوسری جانب پڑی کرسی پر بیٹھ گئیں۔
ڈاکٹر صاحب نے بہت شفیق انداز میں خاتون سے پوچھا: ”جی فرمائیے! کیا خدمت کر سکتا ہوں آپ کی؟”
خاتون نے بہت دکھ بھری آواز میں جواب دیا: ”ڈاکٹر صاحب ! میرا ایمان بہت کمزور ہے۔”
ڈاکٹر نے یہ سن کر حیرت سے خاتون کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا کہ اس کام کے لیے تو محترمہ کو کسی مولانا صاحب کی خدمات حاصل کرنی چاہئے تھی اور یہ میرے پاس آ گئی ہیں۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ اچھا تو پھر…
خاتون نے مزید کہا کہ دودھ ، انڈے ، پھل، جوس اور ڈرائی فروٹ وغیرہ سب کچھ آزما کر دیکھ لیا ہے لیکن کچھ افاقہ نہیں ہوا۔
ڈاکٹرکی حیرت مزید بڑھی کہ ان چیزوں کا ایمان کی مضبوطی کے ساتھ کیا تعلق۔ وہ سوچنے لگے کہ شاید یہ خاتون کوئی ذہنی مریضہ ہے ۔ انہوں نے کہا :
”آپ کے ایمان کی بہتری اور مضبوطی کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں۔”
خاتون نے اپنے ڈیڑھ سالہ بیٹے ”ایمان” کو ڈاکٹر کے آگے کرتے ہوئے کہا: ”یہ دیکھ لیں ڈاکٹر صاحب، سب کچھ کھانے پینے کے باوجود اس کی یہ حالت ہے۔ ”
یہ سن کر ڈاکٹر کی ہنسی چھوٹ گئی ۔