پیارے بچو! ایک گائوں میں شہیر نامی ایک شخص رہتاتھا ۔ وہ بہت سست اور کاہل تھا، کوئی کام نہ کرتا تھا ، بس سارا دن اِدھر اُدھر گھومتا پھرتا رہتا ہے۔ دن کو جہاں سے کچھ کھانے کو ملا کھا لیا ، لوگوں کے سامنے رنگ برنگی بڑھکیں مارتا رہتا ہے، اکثرلوگ اُس کی مزاحیہ باتیں سن کر دس بیس روپے اُس کے جیب میں ڈال دیا کرتے تھے اور یہ اُس کی آمدنی کاذریعہ تھا۔ شہیر کے گھر والے بھی اُس سے عاجز آ چکے تھے اور وہ اُسے کوئی کام دھندہ شروع کرنے کا کہہ کہہ کر تھک چکے تھے ، مگر وہ تھاکہ کسی ملازمت یا دوسرے کسی کام کی طرف مائل ہی نہ ہوتا تھا۔
جب باوجود سمجھانے بجھانے کے شہیر اپنی ان عادات سے باز نہ آیا تو اُس کے گھر والوں کی جانب سے گائوں والوں کو سختی سے منع کر دیا گیا کہ وہ اُسے نہ تو پیسے دیا کریں اور نہ کچھ کھانے پینے کو ، کیونکہ اس سے وہ مزید کام چور ہو گیا ہے اور کام دھندے کی طرف نہیں آ رہا ہے۔ اس کے بعد جہاں اُسے کھانا پینا ملنا بند ہو گیا وہیں اُسے روز حاصل ہونے والی سو پچاس روپے کی آمدنی بھی ختم ہو گیاہے۔ اس صورت حال سے شہیر بہت پریشان ہوا۔ اُس کے گھر والوں نے سمجھایا کہ سب بچگانہ حرکتیں چھوڑ کر اب کوئی ملازمت تلاش کرے۔ اگلے روز اُس نے نئے عزم و ارادے کے ساتھ صبح نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہنے ، اپنے سکول سرٹیفکیٹس اور ڈگریز کی فائل اُٹھائی اور نزدیکی قصبے کی جانب نکل گیا تاکہ کوئی نوکری دیکھے۔ قصبے میں کئی گھنٹے مختلف دفاتر کا چکر لگانے کے بعد جب ملازمت کے حوالے سے کوئی آس اُمید پیدا نہ ہوئی تو اُس نے واپسی کی راہ لی۔ بھوک نے اُسے نڈھال کر دیا تھا لیکن جیب میں کوئی پائی پیسہ بھی نہ تھا کہ کچھ خرید کر کھا لے، کئی گلاس پانی پیا لیکن پانی سے کب بھوک مٹتی تھی۔ اچانک اُس کی نظر ایک کھلے میدان میں بنائے گئے شادی ہال پر پڑی۔ وہ کھانے پینے کی اُمید پر وہاں پہنچا، دیکھا تو مہمانوں کو کھانا کھلایا جا رہا تھا۔ وہ بھی وہاں جا پہنچا لیکن اس سوچ میں ڈوبا تھا کہ اگر کسی نے پوچھا کہ وہ کس کا مہمان ہے تو کیا جواب دے گا، کیونکہ وہ نہ تو لڑکی والوں کی طرف سے مدعو تھا اور نہ لڑکے والوں کی طرف سے اور یہاںدونوں کی جانب سے مشترکہ کھانے کی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اچانک اُسے ایک ترکیب سوجھی ، اُس نے اپنا ماسک بھی اچھی طرح پہن لیا اور مہمانوں کی گنتی شروع کر دی۔ میزبانوں کی جانب سے شہیر کو اس طرح کرتے دیکھ کر پوچھا گیا کہ وہ کون ہے اور کیوں مہمانوںکی گنتی کر رہا ہے۔ اُس نے بتایا کہ وہ سرکاری اہلکار ہے اور اُسے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ چیک کر کے آئے کہ کتنے لوگوں نے ماسک پہنا تھا اور کیا سماجی فاصلے کا اہتمام کیا گیا تھا نہیں۔ میزبان اس صورتحال سے پریشان ہو گئے، لڑکے اور لڑکی والوں نے مل کر اُسے بٹھا کر وی آئی پی مہمان کی طرح کھانا کھلایا اور خوب خاطر مدارت کے بعد اُس کے جیب میں ایک لفافہ ڈالتے ہوئے کہا کہ اب آپ معاملے کو سنبھال لینا۔ اُس نے واپسی پر جب اپنے گائوں سے تھوڑاپہلے لفافہ کھولا تو اُس میںہزار روپے کے دو نوٹ تھے۔ شہیر کی تو جیسے عید ہو گئی۔ اب اُس نے نوکری تلاش کرنے کے بجائے دھوکہ دہی کا یہ دھندہ شروع کر دیا۔ وہ نئے کپڑے پہن کر کاغذات کی فائل بغل میں دبا کر نکل جاتا اور جہاں کہیں شادی کی تقریب ہو رہی ہوتی ، وہاں سادہ شہریوں سے ایس اوپیز کی خلاف ورزی کے نام پر ہزار دو ہزار روپے وصول کر لیتا۔ لیکن شہیر کی بدبختی کہ ایک دن وہ ایک ایسی شادی کی تقریب میںچلا گیا جہاں اُس کے گائوںکے بھی کافی لوگ دعوت میں شریک تھے۔ اُس نے وہاں بھی یہ حربہ آزمانہ چاہا لیکن تقریب میںموجود گائوں کے لوگوں نے میزبانوںکو اُس کی حقیقت سے آگاہ کر دیا۔ سب نے مل کر شہیر کو پکڑ کر اُس کی خوب درگت بنائی اور قریب تھا کہ اُسے پولیس کے حوالے کر دیتے ، لیکن اُس کے توبہ تائب ہونے پر وہاں موجود بزرگوں نے اس کی جان بخشی کروا دی۔ یہ سچ ہے کہ دھوکہ دہی دیر نہیںچلتی اور آخر سچ سامنے آ ہی جاتا ہے۔